ساہیوال کے واقعے نے پورے ملک کو اداس کر دیا‘ میڈیا بار بار دو معصوم بچیاں اور خوف کے شکار 10سال کے بچے عمیر کو دکھا رہا ہے‘ سوشل میڈیا پر پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے ذیشان‘ خلیل احمد‘ خاتون نبیلہ اور تیرہ سال کی بچی اریبہ کی لاشیں بھی ہر حساس شخص کو خون کے آنسو رلا رہی ہیں‘ جان دینا اور جان لینا دونوں اللہ تعالیٰ کے کام ہیں‘ ہم انسان جب بھی کسی نئے انسان کو جنم دینے کا فیصلہ کریں یا ہم کسی منصب پر بیٹھ کر کسی کی جان لے رہے ہوں تو ہمیں قلم اور رائفل چلاتے ہوئے دس مرتبہ سوچنا چاہیے‘
ہم اگر کسی بچے کو جنم دے کر اس کی پرورش کی ذمہ داری پوری نہیں کرتے یا پھر ہماری غفلت سے کسی کی جان چلی جاتی ہے تو ہم اللہ تعالیٰ کے غضب سے نہیں بچ پاتے‘ خدا ہمیں معاف نہیں کرتا‘ ساہیوال میں بھی یہی ہوا‘ کاﺅنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی فائرنگ سے تین بے گناہوں کی جان بھی گئی اور تین معصوم بچوں نے اپنی آنکھوں سے اپنے والدین کو بھی مرتے دیکھا‘ یہ دیکھنے سے بہترتھا یہ بچے بھی دنیا سے رخصت ہو جاتے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ اب نارمل زندگی نہیں گزار سکیں گے‘ ان بچوں کی تکلیف اور بے گناہوں کا خون بھی پوری زندگی مارنے والوں کا پیچھا کرتا رہے گا‘ یہ بھی اب نارمل زندگی کو ترستے رہیں گے‘ ہم فرض کر لیتے ہیں پولیس کے مطابق خلیل احمد کا دوست ذیشان دہشت گردوں کا ساتھی تھا لیکن پولیس کے پاس اس کو گرفتار کرنے کے بے شمار طریقے موجود تھے‘ یہ سڑک پر گاڑی رکوا کر اسے گرفتار کر سکتے تھے‘ یہ اسے ٹول پلازے پر بھی روک سکتے تھے اور پولیس نے جب ٹائروں پر گولی مار کر گاڑی روک لی تھی تو یہ اس وقت بھی اسے زندہ پکڑ سکتی تھی یوں سڑک پر سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں گاڑی کو چھلنی کر دینا یہ کہاں کا انصاف‘ یہ کہاں کی انسانیت اور یہ کہاں کا پروفیشنل ازم ہے؟ ہم اس کی جتنی بھی مذمت کریں کم ہو گی‘ بہرحال یہ واقعہ ہو گیا اور یہ حقیقت ہے انسان کچھ بھی کر لے وہ ایسے واقعات کو ”ری ورس“ نہیں کر سکتا‘ ہم سب مل کر بھی ان بچوں کو ان کے والدین واپس کر سکتے ہیں اور نہ زندگی کی سرحد پار کرنے والوں کو واپس لا سکتے ہیں لیکن ہم اس واقعے سے سیکھ بہت کچھ سکتے ہیں۔
ساہیوال کے واقعے سے پہلا لیسن ریاست کو سیکھنا چاہیے‘ حکومت قانون بنا دے فائر کا حکم ہمیشہ اوپر سے دیا جائے گا اور وہ آرڈر واضح اور قانونی ہو گا اور کوئی بے گناہ اس حکم کی زد میں نہیں آئے گا‘ دوسرا‘ دنیا کے تمام جدید ملکوں میں پولیس کے پاس مہلک اسلحہ نہیں ہوتا‘ یہ زیادہ تر شارٹ گن یا پستول کی ہلکی گولی استعمال کرتے ہیں‘ اس سے ملزم عموماً زخمی ہوتے ہیں‘ ہلاک نہیں ہوتے‘ مہلک اسلحہ صرف سپیشل فورسز کے پاس ہوتا ہے اور وہ لوگ انتہائی ماہر نشانہ باز ہوتے ہیں‘
وہ ٹارگٹ کے علاوہ چیونٹی تک کو نقصان نہیں پہنچاتے جبکہ ہم نے عام پولیس کو بھی کلاشنکوف اور تھری ناٹ تھری دے رکھی ہیں چنانچہ یہ جب بھی فائر کرتے ہیں یہ بے گناہوں کو بھی زندگی کی سرحد سے باہر دھکیل دیتے ہیں‘ہمارے ملک میں بے شمار نوجوان ناکوں پر موجود پولیس کی فائرنگ سے قتل ہو چکے ہیں لہٰذا حکومت کو پولیس کا اسلحہ بھی تبدیل کر دینا چاہیے‘ یہ اگر ممکن نہ ہو تو آپ انہیں ہلکی گولیاں دے دیں تاکہ یہ ملزموں کو صرف زخمی کر سکیں‘
یہ ان کی جان نہ لے سکیں اور تیسرا‘ پوری دنیا کی پولیس ملزموں کو گرفتار کرنے کی ایکسپرٹ ہوتی ہے‘ پولیس اہلکار چند لمحوں میں ملزم کو نیچے گرا لیتے ہیں اور اس کی کلائیاں پیچھے لے جا کر باندھ دیتے ہیں‘یہ ملزموں کو ”ٹیزر“ کے ذریعے کرنٹ دے کر بھی بے ہوش کر دیتے ہیں اور اب دنیا میں لیزر گنز بھی آ چکی ہیں‘ پولیس دور سے لیزر مار کر ملزم کو گرا لیتی ہے جبکہ ہمارے ملک میں آج بھی ملزموں کو گرفتار کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے‘ منت یا گولی‘
ہماری پولیس ملزم کے پیچھے بھاگ سکتی ہے اور نہ اسے دبوچ سکتی ہے چنانچہ اہلکار سارے کام رائفل سے لیتے ہیں‘ یہ لوگ اچھے نشانچی بھی نہیں ہیں‘ یہ گولی دائیں چلاتے ہیں اور بندہ بائیں مر جاتا ہے یا پھر یہ گولیوں کی اتنی بوچھاڑ کر دیتے ہیں کہ ملزم کے ساتھ ساتھ ہمسائے بھی مارے جاتے ہیں‘ ریاست کو پولیس کی اس کمزوری پر بھی توجہ دینی چاہیے اور چوتھا اور آخری سبق ہم عوام کےلئے ہے‘ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی تحقیقات کے مطابق ذیشان جاوید کا تعلق دہشت گرد گروپ کے ساتھ تھا‘
یہ لوگ یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے کے اغواءکے ساتھ ساتھ آئی ایس آئی کے بے شمار افسروں کے قتل میں بھی ملوث تھے‘ یہ موبائل فونز اور انٹرنیٹ کے آئی پی تک تبدیل کر لیتے تھے‘ پولیس اور خفیہ ادارے آٹھ سال سے ان کا پیچھا کر رہے ہیں‘ یہ 2018ءکے آخر میں ان کے ریڈار میں آ گئے‘ بظاہر عام‘ نیک اور غریب دکھائی دینے والے یہ لوگ اندر سے برگد کی جڑوں کی طرح دور تک پھیلے ہوئے ہیں‘ پولیس اور ایجنسیوں سے بچنے کےلئے یہ ہمیشہ بچوں‘ خواتین اور فیملیز کو استعمال کرتے ہیں‘
لوگوں سے ذاتی تعلقات استوار کرتے ہیں اور پھر ان سے لفٹ لے کر یا انہیں لفٹ دے کر ان کے خاندانوں کے ساتھ سفر کرتے ہیں اور بارود ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دیتے ہیں‘ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا ذیشان جاوید بھی ایک ایسا ہی دہشت گرد یا سہولت کار تھا‘ یہ تحقیقات کے بعد ہی ثابت ہو سکے گا تاہم پولیس اور خفیہ اداروں کا دعویٰ ہے ذیشان سہولت کار تھا‘ 19 جنوری کو گوجرانوالہ میں مارے جانے والے دو دہشت گرد لاہور میں اس کے گھر میں پناہ گزین رہے تھے‘
اس کا رابطہ 15 جنوری کو فیصل آباد میں مارے جانے والے دہشت گردوں کے ساتھ بھی تھا‘ یہ اپنی گاڑی میں خلیل احمد کی فیملی کو بورے والا لے جا رہا تھا اور ساہیوال میں مارا گیا‘ ہم عوام کو اس واقعے سے سبق سیکھنا چاہیے‘ کسی بھی شخص کو خواہ وہ ہمارا کتنا ہی پرانا اور قریبی دوست کیوں نہ ہو ہم اسے فیملی کے ساتھ سفر نہ کرائیں‘ ہم بس یا ٹرین میں سفر کر لیں‘ ہم اپنے مہمان کو کرائے پر گاڑی لے دیں لیکن ہم اسے ساتھ نہ لے کر جائیں‘ کیوں؟ کیونکہ کچھ پتہ نہیں کون کب ہمارے بچوں کو ہیومن شیلڈ بنا لے لہٰذا ہمیں بھی بہرحال چوکنا رہنا ہوگا اور یہ ساہیوال کے واقعے کا وہ دوسرا رخ تھا جو معصوم بچوں اور تین بے گناہ لوگوں کے قتل کی وجہ سے پورے ملک کی نظروں سے اوجھل ہو گیا‘ ذیشان جاوید فراموش ہو گیا اورخلیل احمد کی فیملی اور تین بے گناہوں کے قتل نے اصل کہانی پر پردہ ڈال دیا۔
ہماری زندگی میں دوسرا رخ بہت اہم ہوتا ہے‘ ہمیں چاہیے ہم جب بھی پہلے رخ کو دیکھیں‘ ہم کوشش کریں ہم دوسرا رخ بھی تلاش کریں کیونکہ یہ عین ممکن ہے اصل حقیقت دوسرا رخ ہو‘ مجھے یہ تجربہ جمعہ 18 جنوری ہی کو ہوا‘ سی پی این ای (کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز) نے جمعہ کو اسلام آباد میں میڈیا اینڈ ڈیموکریسی پر کنونشن منعقد کیا‘ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا ایسا میڈیا کنونشن تھا جس میں ملک بھر کے پریس کلب بھی شریک تھے‘ صحافیوں کی تنظیمیں بھی‘ ملک کے نامور صحافی‘ ایڈیٹر‘ میڈیا مالکان‘ ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کے سی ای او اور اینکر پرسنز بھی اور حکومت اور اپوزیشن کے نمائندے بھی‘
ملک میں پہلی بار جمہوریت اور میڈیا پر کھل کر بات ہوئی‘ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی‘ وزیر اطلاعات فواد چودھری‘ مریم اورنگزیب اور نیئر بخاری نے بھی کنونشن میں کھل کر بات کی‘ میڈیا کے تمام سٹیک ہولڈرز ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے اور بے لاگ بات چیت کی‘ میں نے کنونشن میں مالکان کے کاروباری مفادات اور سیاسی ایجنڈے پر بات کی‘ میرے دوست اور گروپ ایڈیٹر ایاز خان نے اس کا بہت خوبصورت جواب دیا‘ ان کا کہنا تھا بے شک میڈیا کی انڈسٹری میں سرمایہ کار‘ صنعت کار اور تاجر آئے لیکن یہ فیلڈ آج جس خوشحالی کو انجوائے کر رہی ہے یہ صرف اور صرف ان لوگوں کی مرہون منت ہے‘
یہ لوگ صحافت میں نہ آتے تو ہم آج بھی ہونڈا سی ڈی 70 پر ہوتے‘ میں نے ان سے اتفاق کیا‘ یہ حقیقت ہے 2000ءتک صحافت صرف تین گروپوں تک محدود تھی‘ یہ لوگ خود ارب پتی تھے لیکن صحافی خون تھوک رہے تھے پھر بڑے صنعتی گروپ آئے اور صحافیوں کے دن پھرنا شروع ہو گئے‘ ٹیلی ویژن نے خوشحالی کے اس سفر کو مزید بہتر کر دیا‘ ایکسپریس کے سی ای او اعجاز الحق نے کہا‘ 2000ءتک صحافتی مالکان صحافت سے کما کر دوسرے شعبوں میں لگاتے تھے لیکن پھر ایسے لوگ آئے جنہوں نے دوسرے شعبوں سے کمایا اور صحافت میں لگا دیا‘
یہ ایک ایسا دوسرا رخ تھا جس سے زیادہ تر لوگ ناواقف تھے‘ کنونشن میں حکومت کو صحافتی برادری اور صحافتی برادری کو حکومت کا موقف سمجھنے کا موقع بھی ملا‘ شرکاءنے تسلیم کیا صحافت کا گلہ گھونٹا جا رہا ہے‘ ملک میں ایک ان دیکھا خوف موجود ہے‘ ہر شخص پریشان ہے اور یہ پریشانی صحافت کے ذریعے پورے ملک میں پھیل رہی ہے‘ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میڈیا کے کندھوں پر بیٹھ کر ایوان اقتدار میں داخل ہوئی‘ میڈیا نے جتنی عمران خان کو سپورٹ دی اتنی سپورٹ آج تک کسی دوسرے لیڈر کو نہیں ملی لیکن عمران خان نے حکومت میں آ کر سب سے پہلے میڈیا کو ٹارگٹ کیا‘
میڈیا نے حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی سسکنا شروع کیا اور یہ اب ایڑیاں رگڑ رہا ہے‘ اخبارات بند ہو رہے ہیں اور ٹیلی ویژن چینلز ڈاﺅن سائزنگ کے عمل سے گزر رہے ہیں‘ یہ سلسلہ اگر چلتا رہا تو میڈیا کےلئے سانس لینا مشکل ہو جائے گا اور یہ حقیقت ہے میڈیا اور جمہوریت دونوں ایک دوسرے کےلئے لازم و ملزوم ہیں‘ صحافت نہیں رہے گی تو پھر جمہوریت بھی ممکن نہیں ہو گی‘ اس کنونشن میں فیصلہ ہوا تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر میڈیا کو بچانا ہوگا ورنہ پھر ہمیں جمہوریت کا جنازہ پڑھ لینا چاہیے اور یہ وہ دوسرا رخ تھا جس سے سانحہ ساہیوال کی طرح زیادہ تر لوگ ناواقف تھے‘ یہ میڈیا کے بحران کو صرف میڈیا کا بحران سمجھ رہے تھے۔