کانپور بھارتی ریاست اتر پردیش کا مشہور اور قدیم شہر ہے‘ یہ شہر قیام پاکستان سے پہلے چمڑے اور سوتی کپڑے کی وجہ سے پورے ہندوستان میں مشہور تھا‘ انگریز نے 1876ء میں کانپور میں ہندوستان کی پہلی وول مل لگائی اور یہ چمڑے اور کاٹن کے ساتھ وول کی سب سے بڑی منڈی بھی بن گیا‘ لالہ کملا پت کا تعلق اس شہر سے تھا‘ وہ کپاس کا بیوپاری تھا‘ اس نے انگریزوں کو دیکھتے ہوئے 1888ء میں جے کے آرگنائزیشن کے نام سے کاٹن اور وول کی کمپنی بنا لی‘
جے اس نے اپنے والد جگی لال سنگھانیا سے لیا تھا اور کے اس کے اپنے نام کملا کا پہلا حرف تھا‘ یہ کمپنی کامیاب ہو گئی‘ کانپور‘ دہلی اور ممبئی میں کمپنی کے دفتر کھل گئے اور یہ دھڑا دھڑ روپیہ کمانے لگے‘ لالہ کیلاش پت سنگھانیا لالہ کملا پت کا بیٹا تھا‘ بیٹا کاروبار میں آیا اور اس نے کاٹن اور وول کی تجارت تک محدود کمپنی کو سیمنٹ‘ ٹائر‘ کاغذ‘ ڈیری اور انجینئرنگ کے سامان تک پھیلا دیا‘ 1925ء تک جے کے آرگنائزیشن کے ملازمین کی تعداد 50 ہزار ہو گئی اور یہ ہندوستان کا سب سے بڑا گروپ بن گیا‘ لالہ کیلاش پت نے بعد ازاں جے کے آرگنائزیشن کو ریمنڈ گروپ میں تبدیل کر دیا اور گروپ نے کپڑے‘ گارمنٹس‘ ڈیزائنرویئر اور وول میں اجارہ داری قائم کر لی‘ وجے پت سنگھانیا خاندان کی تیسری نسل تھی‘ یہ آیا اور اس نے ریمنڈ گروپ کو بھارت کے 380 شہروں تک پھیلا دیا‘ اس نے ملک میں گیارہ سو ایگزیکٹو سٹورز اور 20 ہزار سیل پوائنٹس بھی بنا دیئے‘ گروپ کا کاروبار دنیا کے 55 ملکوں تک بھی پھیل گیا اور یہ دنیا میں ٹیکسٹائل کا پاور ہاؤس بھی بن گیا یوں وجے پت سنگھانیا بھارت کے امیر ترین افراد میں شامل ہو گیا‘یہ اربوں ڈالر کا مالک تھا‘ وجے پت سنگھانیا نوجوانوں کی صلاحیتوں پر یقین کرنے والا شخص تھا‘ اس نے 2007ء میں اپنا سارا کاروبار اپنے بیٹے گوتم سنگھانیا کے حوالے کر دیا‘ گوتم سنگھانیا والد کے ایک دستخط کے ساتھ ایک ہی رات میں 12 ہزار کروڑروپے کا مالک بن گیا اور یہاں سے وجے پت سنگھانیا کا برا وقت شروع ہو گیا‘
وہ بیٹا جو اپنی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کیلئے باپ کے جوتے اٹھانے کیلئے تیار رہتا تھا اس نے آنکھیں ماتھے پر رکھنا شروع کر دیں‘ مالا بار ہل ایریا میں 36 منزلہ سنگھانیا ہاؤس تھا‘ وجے پت کا اس میں خوبصورت ایگزیکٹو اپارٹمنٹ تھا‘ یہ اپارٹمنٹ بیٹے نے والد کے نام کرنا تھا لیکن بیٹا مکر گیا‘ وجے پت کی اپنی کمپنی کے لوگ آئے اور اسے اس اپارٹمنٹ سے بے دخل کر دیا‘ وجے پت شیئرز کی ٹرانسفر کے باوجود گروپ کا چیئرمین تھا‘ بیٹے نے ڈائریکٹرز کے ساتھ مل کر باپ کو چیئرمین شپ سے بھی ہٹوا دیا‘
وجے پت کا دفتر ہیڈکوارٹر میں تھا‘ وہ ایک دن دفتر آیا تو پتہ چلا وہ دفتر بھی اب اس کا نہیں رہا اور وہ مجبوراً کرائے کے مکان میں شفٹ ہو گیا لیکن اس کی اپنی کمپنی نے کرایہ دینے سے انکار کر دیا‘ باپ وجے پت اور بیٹے گوتم پت میں دو سال سے کوئی رابطہ اور کوئی بات چیت بھی نہیں یوں بھارت کا چار نسلوں سے کھرب پتی بزنس مین پیسے پیسے کو محتاج ہو گیا‘ یہ اب روزانہ کی ضروریات کیلئے بھی دوستوں کی طرف دیکھتا رہتا ہے‘ وجے پت سنگھانیا نے ان حالات سے تنگ آ کر عدالت جانے کا فیصلہ کر لیا‘
یہ بھارت بلکہ پوری دنیا کیلئے حیران کن کیس ہو گا‘ اس کیس میں ایک سابق کھرب پتی باپ اپنے موجودہ کھرب پتی بیٹے کو عدالت میں طلب کرے گا اور پھر عدالت سے درخواست کرے گا ”ہم والدین اگر اپنی اولاد کو اپنی زمین جائیداد دے سکتے ہیں تو پھر ہمارے پاس وہ زمین جائیداد واپس لینے کا اختیار بھی ہونا چاہیے“ یوں یہ اپنی نوعیت کا ایک حیران کن کیس ہو گا۔وجے پت سنگھانیا کی داستان برصغیر پاک وہند کی لاکھوں بلکہ کروڑوں داستانوں میں سے ایک ہے‘
آپ کو اپنی زندگی میں بھی ایسے بے شمار کردار مل جائیں گے جو امیر تھے‘ طاقتور اور صاحب جائیداد تھے اور ان کے عزیز‘ رشتے دار‘ دوست اور بچے ہر وقت ان کے اردگرد گھومتے پھرتے رہتے تھے لیکن پھر انہوں نے اپنا سب کچھ اپنے بچوں کو سونپ دیا اور پھر یہ دربدر ہو گئے اور یہ نعمتوں‘ سہولتوں اور اولاد کی محبت کو ترستے ترستے دنیا سے رخصت ہو گئے‘ لاہور میں میرے ایک جاننے والے تھے‘ وہ کیمیکل امپورٹ کیا کرتے تھے‘ کروڑ پتی تھے‘
اپرمال سکیم میں ان کا گھر تھا‘گاڑیاں اور نوکر چاکر تھے‘ اللہ نے انہیں اولاد سے بھی نواز رکھا تھا‘ تین بیٹے تھے‘ تینوں فرمانبردار تھے‘ بہویں بھی ہر وقت ان کی خدمت کرتی رہتی تھیں‘ ان کی بیگم کا انتقال ہو گیا‘ انہیں جذباتی دھچکا پہنچا اور وہ دنیا سے دین کی طرف راغب ہو گئے‘ عمرہ کیا‘ حج کیا اور پھر اولیاء کرام کی محفل میں بیٹھنے لگے جس کے بعد انہیں دنیا اور اس کا مال بے معنی سا محسوس ہونے لگا‘ وہ ایک دن اٹھے‘ بچوں کو اکٹھا کیا اور اپنا سارا کاروبار‘ جائیداد اور جمع پونجی ان کے حوالے کر دی‘
اپنے لئے گھر کا ایک پورشن پسند کیا‘ بچوں سے اپنا ماہانہ طے کرایا اور اللہ اللہ کرنے لگے‘بیٹے انہیں شروع میں باقاعدگی سے جیب خرچ دیتے رہے لیکن یہ بندوبست بمشکل چھ ماہ چل سکا‘ پہلے جیب خرچ بند ہوا‘ پھر ایک بیٹا دوسرے بیٹے اور دوسرا تیسرے پر ڈالنے لگا‘ پھر والد کے پورشن میں مہمان ٹھہرائے جانے لگے اور آخر میں تینوں بیٹوں نے والد کو تنہا چھوڑ دیا‘ وہ صاحب بے بسی اور عسرت کے عالم میں انتقال کر گئے‘ یہ ایک ماڈل تھا‘ آپ اب دوسرا ماڈل ملاحظہ کیجئے‘
میرے عزیز دوست فیضان عارف یورپ کے کسی ملک میں کسی پاکستانی سے ملاقات کیلئے گئے‘ وہ صاحب بزرگ تھے اور پورے خاندان کا نیوکلیس تھے‘ ان کے بیٹے‘ بیٹیاں‘ بہویں اور داماد بھی ان کا احترام کرتے تھے اور نواسے نواسیاں اور پوتے پوتیاں بھی‘ فیضان عارف نے ان سے کہا ”انکل میں نے پورے یورپ میں ایسا پاکستانی گھرانہ نہیں دیکھا‘ لوگ یہاں اولاد کا شکوہ کرتے رہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی سعادت مند اولاد سے نواز رکھا ہے‘‘
وہ صاحب سن کر ہنسے‘ ہاتھ کی مٹھی سی بنائی اور فیضان عارف کو دکھا کر بولے ”فیضان بھائی میں نے آج تک اپنی مٹھی نہیں کھولی“ فیضان نے کہا ”میں سمجھا نہیں“ وہ بولے‘ میں نے زندگی میں جو کچھ کمایا‘ اپنے پاس رکھا‘ میں بچوں کو صرف ضرورت کے مطابق پیسہ دیتا ہوں چنانچہ یہ میرا احترام کرتے ہیں‘ میں آج اپنی مٹھی کھول دوں تو میں کشکول بن جاؤں گا۔یہ دو مثالیں زندگی کے دو رخ ہیں‘ ہم پہلے رخ کو سنگھانیا رخ کہہ سکتے ہیں اور دوسرے رخ کو انکل رخ‘ میری نظر میں یہ دونوں رخ غلط ہیں‘
ہم سنگھانیافارمولے کے تحت اپنا سب کچھ اولاد کے حوالے کر کے دربدر ہو جاتے ہیں اور ہم انکل فارمولے پر عمل کر کے اپنی اولاد کی نظروں میں بے توقیر ہو جاتے ہیں‘ اولاد ہم سے اصل محبت نہیں کرتی‘ ہمارے بچے لالچ یا خوف کی وجہ سے ہمارا احترام کرتے ہیں چنانچہ یہ دونوں فارمولے غلط ہیں‘ قدرت نے ان دونوں کے درمیان بھی ایک راستہ رکھا ہوا ہے اور وہ راستہ مجھے کراچی کی ایک میمن فیملی نے دکھایا تھا‘ کراچی کے زیادہ تر میمن اپنے بچوں کو الگ الگ کاروبار کرا دیتے ہیں‘
یہ کاروبار الگ بھی ہوتا ہے اور فیملی کے ساتھ بھی‘ بچے والد کی کمپنی‘ فیکٹری یا دکان کو مال سپلائی کرتے ہیں یا اس سے خریدتے ہیں لیکن پورا منافع ان کا ہوتا ہے یوں یہ ساتھ بھی ہوتے ہیں اور الگ بھی‘ دوسرا فیملی اگر امیر ہو تو یہ لوگ زیادہ زمین خرید کر ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ گھر بنا لیتے ہیں‘ گھر الگ الگ ہوتے ہیں لیکن پارکنگ اور صحن ایک ہوتا ہے‘ والدین اس احاطے میں درمیان میں رہتے ہیں‘ یہ لوگ اگر زمین نہ خرید سکیں تو یہ اپنے گھر کو مختلف پورشنز میں تقسیم کر دیتے ہیں‘
والدین نچلی منزل میں رہتے ہیں اور بچے بالترتیب اوپر‘ والدین اپنا مرکزی کاروبار مرنے تک اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں‘ کاروبار اور جائیداد ان کے انتقال کے بعد تقسیم ہوتی ہے چنانچہ یوں والدین اور بچوں کے درمیان محبت اور احترام دونوں رشتے قائم رہتے ہیں‘ ملازم پیشہ میمن بھی اپنے گھر کے مختلف حصے بچوں کو دے دیتے ہیں لیکن یہ گھر ٹرانسفر نہیں کرتے‘ یہ مٹھی کو آدھا بند اور آدھا کھلا رکھتے ہیں‘ میرا خیال ہے یہ فارمولا زیادہ بہتر ہے‘ آپ سنگھانیا کی طرح اپنی پوری مٹھی کھول کر دربدر بھی نہ ہوں اور آپ فیضان عارف کے دوست انکل کی طرح اپنی مٹھی مکمل بند رکھ کر بچوں کے دل میں خوف بھی پیدا نہ کریں‘
آپ آدھی مٹھی کھول دیں‘ اپنی کمائی کا آدھا حصہ بچوں کو دے دیں اور آدھا بچا کر رکھیں‘ آپ اپنا آدھا حصہ جی بھر کر خرچ کریں‘ اپنے آرام‘ اپنے علاج اور اپنی خواہشوں کی تکمیل میں کوئی کسر نہ چھوڑیں‘ آپ دنیا سے خوش رخصت ہوں گے ورنہ دوسری صورت میں آپ سنگھانیا کی طرح اپنی اولاد کے سامنے محتاج ہو جائیں گے یا پھر آپ کی اولاد آپ کے مرنے کا انتظار کرے گی اور یوں یہ دنیا‘ یہ زندگی آپ کیلئے عذاب ہو جائے گی۔