بنو تمیم قبیلے کی ایک شاخ 1740ءمیں نجد سے قطر آئی‘ یہ لوگ مختلف شہروں میں آباد ہوتے ہوتے انیسویں صدی میں دوہا آ گئے‘ قبیلے کے سردار محمد بن ثانی 1850ءمیں قطر کے حکمران بن گئے‘ ان کے صاحبزادے ثانی بن محمد بھی امیر بنے اور یہاں سے یہ قبیلہ ثانی خاندان کہلانے لگا‘ یہ خاندان بہت جلد بنی قاسم‘ بنی احمد‘ بنی جابر اور بنی تھامر چار حصوں میں تقسیم ہو گیا‘ یہ چاروں خانوادے مختلف اوقات میں قطر کے حکمران بنتے رہے‘ شیخ حمد کا تعلق جابر شاخ سے ہے‘ یہ شیخ جاسم بن جابر کے پانچویں صاحبزادے ہیں‘ یہ 11 جنوری 1959ءکو پیدا ہوئے اور 1982ءمیں میونسپل افیئرز اور محکمہ زراعت کی سربراہی سے سیاست شروع کی‘ یہ بعد ازاں دونوں محکموں کے وزیربھی رہے‘ یہ 1992ءمیں قطر کے وزیر خارجہ بن گئے۔
شیخ حمد بن جاسم بن جابر کو تین شوق ہیں‘ دولت کمانا‘ مہنگی ترین پینٹنگز خریدنا اور بین الاقوامی لیڈروں سے دوستیاں بنانا‘ یہ بے شمار کمپنیوں کے مالک ہیں‘ یہ قطر ائیر ویز کے شیئر ہولڈر بھی ہیں اور الجزیرہ ٹیلی ویژن کے فیصلہ ساز بھی‘ انہوں نے لندن میں دو بلین پاﺅنڈکی رہائشی عمارت بنا کربھی آدھی دنیا کو حیران کر دیاتھا‘ یہ عمارت فلیٹس پر مشتمل ہے اور یہ ون ہائیڈ پارک کہلاتی ہے‘ انہوں نے 180 ملین ڈالر میں پکاسو کی پینٹنگ خرید کر بھی دنیا میں سنسنی پھیلا دی‘ یہ بل کلنٹن کے ذاتی دوستوں میں بھی شمار ہوتے تھے‘ یہ مڈل ایسٹ‘ افریقہ اور فلسطین کی ہر ثالثی میں شامل رہے اور شام کے باغیوں کو سب سے پہلے ہتھیار بھی شیخ حمد نے دیئے تھے‘میاں نواز شریف 2000ءمیں جنرل پرویز مشرف کی قید میں تھے‘ شیخ حمد پہلے بین الاقوامی لیڈر تھے جنہوں نے شریف فیملی کی رہائی کےلئے جنرل مشرف سے رابطہ کیا‘ میاں نواز شریف اس وقت اٹک قلعے میں قید تھے‘ شریف فیملی کے ایک مہربان نے ٹیکنیشن کے ذریعے موبائل فون قلعے میں پہنچایا اور نواز شریف کا اس فون کے ذریعے شیخ حمد سے رابطہ ہوا‘ شیخ حمد بعد ازاں پاکستان تشریف لائے اور جیل میں میاں نوازشریف سے ملاقات کی‘ یہ ملاقات کڑی بنی‘ سعودی عرب اور بل کلنٹن درمیان میں آئے‘ لبنان کی حکمران فیملی الحریری کو ”فرنٹ مین“ بنایا گیا اور یوں شریف فیملی دس سال کےلئے سعودی عرب جلاوطن ہو گئی‘ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے شیخ حمد بن جاسم نے میاں نواز شریف کی رہائی کےلئے اتنی محنت کیوں کی؟
یہ بھی دلچسپ داستان ہے‘ یہ داستان 1980ءکی دہائی سے شروع ہوتی ہے اور داستان کے مرکزی کردار سیف الرحمن ہیں‘سیف الرحمن کی لاہور مزنگ میں دوائیوں کی دکان تھی‘ یہ دکان پورے خاندان کا واحد اثاثہ تھی‘ یہ لوگ مولانا مودودی کے پیروکار تھے‘ یہ اچھرہ میں مولانا کے درسوں میں بھی شریک ہوتے تھے‘ سیف الرحمن 1982ءمیں روزگار کے سلسلے میں قطر چلے گئے‘ شیخ حمد الثانی کے دوسرے صاحبزادے شیخ جاسم بن حمد نے ریڈکو کے نام سے تعمیراتی کمپنی بنائی‘
یہ کمپنی ہائی رائز بلڈنگز بناتی تھی‘ یہ سٹیل ملز کی مالک بھی تھی اور یہ گیس اور پٹرول کی تجارت بھی کرتی تھی‘ سیف الرحمن خان ریڈکو میں ملازم ہو گئے ‘ یہ محنتی انسان ہیں‘ یہ اپنی محنت کے ذریعے جلد ہی شاہی خاندان تک پہنچ گئے‘ یہ اس زمانے میں میاں نواز شریف سے متعارف ہوئے اوریہ ان کے دوست بھی بن گئے‘ سیف الرحمن آنے والے دنوں میں میاں نواز شریف اور قطر کے شاہی خاندان کے درمیان رابطہ بنے‘میاں صاحب پنجاب کے وزیر خزانہ منتخب ہوئے‘
پھر وزیر اعلیٰ بنے اور 1990ءمیں پاکستان کے وزیراعظم بن گئے‘ سیف الرحمن اس دور میں ان کے ساتھ رابطے میں رہے‘اس دور میں عراق نے کویت پر حملہ کر دیا‘ اس حملے کے نتیجے میں امریکا نے عراق پر چڑھائی کر دی‘ جنرل اسلم بیگ آرمی چیف تھے‘ یہ صدام حسین کی طرف جھکاﺅ رکھتے تھے جبکہ میاں نواز شریف امیر کویت اور ان کے اتحادیوں کے ساتھ تھے‘ امیر کویت شیخ جابر الاحمد اس وقت طائف میں پناہ گزین تھے‘ میاں نواز شریف ان سے ملاقات کےلئے گئے اور انہیں ایک ذاتی چیک پیش کیا‘ امیر کویت جلاوطنی میں بھی ارب پتی تھے لیکن نواز شریف کے حقیر سے تحفے نے ان کا دل موہ لیا‘
یہ چیک بعد ازاں میاں نواز شریف کی کویت‘ سعودی عرب اور قطرکے شاہی خاندانوں سے دوستی کا ذریعہ بنا‘ سیف الرحمن خان نے پاکستان میں ریڈکو کی برانچ کھولی‘ حکومت نے اس کمپنی کو ٹھیکے دینا شروع کر دیئے‘ ان ٹھیکوں میں اسلام آباد مری روڈ کی تعمیر نو بھی تھی اور موٹروے کے چند بڑے پروجیکٹ بھی‘آپ یہاں ایک اور حقیقت بھی ملاحظہ کیجئے‘پاکستان میں 1990ءتک کوئی سیاستدان‘ بیوروکریٹ اور فوجی افسر ملک سے باہر جائیداد نہیں خرید سکتا تھا‘
میاں نواز شریف نے وزیراعظم بننے کے بعد یہ قانون ختم کر دیا‘ اس قانون کا پہلا فائدہ آصف علی زرداری نے اٹھایا‘ دوسرا شریف فیملی نے اور اس کے بعد لائین لگ گئی‘ شیخ حمد الثانی کی کمپنیاں لندن میں رئیل سٹیٹ کا کام کرتی تھیں‘ یہ کمپنیاں ٹیکس بچانے کےلئے آف شور کمپنیوں کے ذریعے جائیدادیں خریدتی تھیں‘ یہ لوگ سنٹرل لندن میں ہائیڈ پارک کے گرد بے شمار فلیٹس کے مالک تھے‘ ان فلیٹس میں مے فیئر کے وہ چار فلیٹس بھی شامل تھے جن کی وجہ سے میاں نواز شریف فیملی اس وقت سپریم کورٹ میں خوار ہو رہی ہے‘
یہ فلیٹس پانامہ میں رجسٹر دو آف شور کمپنیوں نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ اور نیسکول لمیٹڈ کے نام تھے‘ شیخ حمد الثانی نے یہ فلیٹس 1991-92ءمیں نواز شریف فیملی کو دے دیئے‘ کیوں دے دیئے؟ اس کا جواب سردست کسی کے پاس موجود نہیں لیکن یہ جواب بہت جلد وقت کے بطن سے باہر آ جائے گا‘ میاں نواز شریف کے تعلقات الثانی فیملی کے ساتھ جاری رہے‘ یہ 1997ءمیں دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو انہوں نے سیف الرحمن خان کو سینیٹر بھی بنا دیا اور انہیں احتساب کی ذمہ داری بھی سونپ دی‘
سیف الرحمن خان استرے قینچیاں لے کر بھٹو فیملی پر پل پڑے‘یہ سلسلہ 12 اکتوبر 1999ءتک جاری رہا‘ جنرل مشرف آئے اور شریف خاندان کے ساتھ ساتھ سیف الرحمن بھی جیل میں ڈال دیئے گئے‘ سیف الرحمن کمزور آدمی تھے‘ یہ جیل میں رو پڑتے تھے چنانچہ یہ ملکہ جذبات مشہور ہو گئے‘ سیف الرحمن کی والدہ اور بیگم نے شیخ حمد سے رابطہ کیا‘ یہ رابطہ آگے چل کر شریف فیملی کی رہائی کا ذریعہ بنا لیکن آپ سیاست کی بے رحمی ملاحظہ کیجئے‘
شریف خاندان جدہ روانہ ہوگیا لیکن سیف الرحمن پاکستان میں جیلوں اور عدالتوں میں دھکے کھاتے رہے‘ یہ بعد ازاں جنرل مشرف کے وزیر داخلہ جنرل معین الدین حیدر کی مہربانی سے ملک سے باہر گئے‘ سیف الرحمن اس زمانے میں دکھی تھے چنانچہ انہوں نے فوج کے سامنے میاں نواز شریف کے تمام راز اگل دیئے‘ یہ ”غداری“ میاں نواز شریف کو سیف الرحمن سے دور لے گئی‘ شیخ حمد 2007ءمیں قطر کے وزیراعظم بن گئے‘ میاں برادران انہیں مبارک باد دینے کےلئے پاکستان سے دوہا گئے‘ شیخ حمد 2013ءتک وزیراعظم رہے‘ یہ بھی آج کل قطر میں پانامہ لیکس بھگت رہے ہیں۔ یہ کہانی کا ایک پہلو تھا‘
آپ اب دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجئے‘ میاں نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے 15 نومبر کو سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے سامنے شیخ حمد بن جاسم الثانی کا ایک تصدیق شدہ خط پیش کیا‘ خط میں شیخ حمد نے انکشاف کیا‘ میاں نواز شریف کے والد میاں شریف میرے والد کے دوست تھے‘ میاں شریف نے 1980ءمیں دوبئی میں اپنی فیکٹری ”گلف سٹیل“ کے 25 فیصد شیئرز فروخت کئے اور بارہ ملین درہم ہمارے رئیل سٹیٹ کے بزنس میں لگا دیئے‘ ہم نے اس سرمایہ کاری کے بدلے شریف فیملی کو اپنے مے فیئر کے فلیٹس استعمال کرنے کی اجازت دے دی‘ ہم نے میاں شریف کے انتقال کے بعد ان کی خواہش کے مطابق یہ فلیٹس ان 12 ملین درہم کے عوض حسین نواز کے نام کر دیئے‘ شیخ حمد کے اس حیران کن خط نے پوری دنیا کو پریشان کر دیا‘ کیوں؟
کیونکہ الثانی فیملی کھرب پتی ہے‘ شیخ حمد کھڑے کھڑے180 ملین ڈالرز میں پکاسو کی پینٹنگ خرید لیتے ہیں‘ یہ کھرب پتی خاندان 1980ءمیں ایک غیر معروف پاکستانی صنعت کار سے صرف 12 ملین درہم کیوں لے گا؟ دو‘ الثانی فیملی خود سرمایہ کار ہے‘ یہ دوسروں کو اپنے کاروبار میں سرمایہ کاری کا موقع نہیں دیتی‘ فیملی نے پھر یہ سہولت صرف میاں شریف کو کیوں فراہم کی؟ تین‘ میاں شریف الثانی فیملی کو 12 ملین درہم دے کر 25 سال خاموش کیوں رہے؟
انہوں نے اس دوران شیخ سے کوئی جائیداد اور کوئی منافع کیوں نہیں لیا؟ چار‘ میاں شریف کے درجن بھر پوتے‘ پوتیاں‘ نواسے نواسیاں ہیں لیکن انہوں نے الثانی فیملی کے پاس پڑی امانت صرف حسین نواز کے نام کی‘ کیوں؟ میاں شریف کی ساری وراثت جب پورے خاندان میں تقسیم ہوئی تو یہ فلیٹس صرف حسین نواز کے حصے کیوں آئے اور آخری سوال اگر میاں شریف کے الثانی خاندان کے ساتھ اتنے دیرینہ تعلقات تھے کہ الثانی فیملی نے انہیں 12 ملین درہم کی سرمایہ کاری کا موقع دے دیا اور
میاں شریف نے 25 سال تک ان سے حساب نہیں مانگا تو پھر میاں نواز شریف کو شیخ حمد تک پہنچنے کےلئے سیف الرحمن جیسی سیڑھی کی کیا ضرورت تھی؟ ہم نے جس دن ان پانچ سوالوں کے جواب تلاش کر لئے ہمیں اس دن مے فیئر فلیٹس کی ساری منی ٹریل سمجھ آ جائے گی لیکن مجھے خطرہ ہے یہ پانچ سوال کہیں موٹروے اور ریڈکو کی فائل نہ کھول دیں اور اگر یہ فائل کھل گئی تو سب کچھ کھل جائے گااور شریف فیملی پھر اس ”سب کچھ“ کو سمیٹ نہیں سکے گی۔