جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

محسن

datetime 3  ‬‮نومبر‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

جاوید چودھری
صدربارک حسین اوباما مسکرائے‘ آگے بڑھے‘ ویل چیئر پر جھکے اور میڈل اس کے گلے میں ڈال دیا۔ میں بے اختیار کھڑا ہو گیا اور تالیاں بجانا شروع کر دیں‘ میرے بچے اس بچپنے پر حیران رہ گئے لیکن میری آنکھوں میں آنسو تھے‘ میری نظرین ٹیلی ویژن سکرین پر جمی تھیں اور میں بے خودی کے عالم میں تالیاں بجارہا تھا۔ ٹیلی ویژن سکرین پر سٹیفن ہاکنگ‘ اس کی ویل چیئر‘ اس کا سپاٹ چہرہ اور اس کی دائیں جانب ڈھلکی گردن نظر آ رہی تھی‘ بس اس کی پلکیں اظہار تشکر کیلئے بار بار لرز رہی تھیں‘ دنیا کے اس عظیم ایوارڈ پر سٹیفن ہاکنگ صرف اتنا ہی تاثر دے سکتا تھا‘ وہ اس عظیم کامیابی پریقیناًدنیا کا منہ سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوا ہوگا لیکن وہ اپنے تاثرات‘ اپنے محسوسات اور اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر سکتا تھا‘ اس کی ساری ’’فیلنگز‘‘ اندر ہی اندر تڑپتی رہتی ہیں اور تڑپتے تڑپتے مرجھا جاتی ہیں‘ وہ کمپیوٹر کے ذریعے اپنا مافی الضمیر لوگوں تک پہنچاتا رہتا ہے لیکن زبان اور چہرے کے تاثرات دنیا کا سب سے بڑا ابلاغ بھی ہوتے ہیں اورسب سے بڑی مسرت بھی اور کمپیوٹر خواہ کتنا ہی بڑا‘ کتنا ہی مکمل ہو جائے یہ کبھی اس مسرت اور اس ابلاغ کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ تاریخ کے اس لمحے صدر اوباما کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے اور وہ بھی ان آنسوؤں کی روشنی میں مسکرانے کی کوشش کررہے تھے۔

سٹیفن ہاکنگ میرا سب سے بڑا محسن ہے‘ میں ایم اے میں داخلہ لینے تک ایک نالائق‘ کند ذہن اور سست طالب علم تھا‘ میری زندگی ڈائریکشن لیس بھی تھی اور میں خود کوبے صلاحیت شخص بھی سمجھتا تھا لیکن پھر میں نے سٹیفن ہاکنگ کی کتاب ’’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘‘پڑھی‘ میں نے ہاکنگ کی بیک گراؤنڈ اور اس کی عجیب وغریب بیماری کی تفصیل اور اس بیماری کے باوجود اس کی کامیابیوں کی فہرست پڑھی تو میں حیران رہ گیااور میں نے اپنے جسم کو ٹٹولا‘ پلکیں ہلائیں‘میں نے چہرے کے تاثرات بدل بدل کر دیکھے‘ کمرے میں اچھل کر‘ بھاگ کر اور ڈنڈپیل کر دیکھے‘ آگے پیچھے جھک کر دیکھا اور ٹھنڈے فرش پر ننگے پاؤں چل کر دیکھا تومیں نے خود کو ہر لحاظ سے ایک مکمل انسان پایا اور پھر میں نے سٹیفن ہاکنگ کی تصویر دیکھی‘ وہ ویل چیئر پر ڈھیر تھا‘ اس کی گردن ڈھلکی ہوئی تھی‘ اس کی ٹانگیں اور بازو بے جان حالت میں ویل چیئر پر پڑے تھے اور اس کی کھلی آنکھوں میں دور دور تک اداسی پھیلی تھی‘ مجھے اپنے وجود‘ اپنے خیالات اور اپنے ٹوٹے ہوئے حوصلے پر شرم آنے لگی‘ میں نے سٹیفن ہاکنگ کی تصویر کاٹی‘ اپنی ڈائری میں لگائی اور اس کے بعد زندگی میں کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ میں نے ہر وہ کام کیا جس کے بارے میں لوگوں کا خیال تھا میں یہ نہیں کر سکتا۔ میں نے اس کے بعد نا صرف زندگی کا ہر چیلنج قبول کیا بلکہ اس چیلنج کے ساتھ گتھم گتھا ہو گیا اور زندگی میں جب بھی میرے اوپر برا وقت آیا‘ مجھے تھکاوٹ محسوس ہوئی ‘میں مصائب اور مشکلات کی وجہ سے گھبراہٹ کا شکار ہوگیا تو میں نے فوراً اپنی ڈائری نکالی اور سٹیفن ہاکنگ کی تصویر پر نظریں جما کر بیٹھ گیا اور پھر میرے وجود میں بجلی کوندنے لگی۔ سٹیفن ہاکنگ دنیا کا پہلا شخص تھا جس نے بیس سال پہلے مجھے بتایا تھا دنیا میں انسانی حوصلے کے سامنے کوئی چیز نا ممکن نہیں ہوتی‘ یہ ہماری بے وقوفی‘ کوتاہ نظری اور نا سمجھی ہوتی ہے جو مشکل کو نا ممکن بنا دیتی ہے۔ یہ سٹیفن ہاکنگ تھا جس نے مجھے بتایا ہم مشکلات کی دنیا میں رہ رہے ہیں نا ممکنات کی کائنات میں نہیں۔
سٹیفن ہاکنگ اس وقت آئین سٹائن کے بعد دنیا کا سب سے بڑا سائنسدان ہے‘ اسے دنیا کا سب سے ذہین شخص بھی کہا جاتا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں چودہ سو سال پہلے فرمایا تھا‘ یہ کائنات ابھی نا مکمل ہے اور

دنیا میں روزانہ نئے سیارے جنم لے رہے ہیں۔ قرآن کی اس تھیوری کو سٹیفن ہاکنگ نے ثابت کیاتھا۔ اس نے کائنات میں ایک ایسا ’’بلیک ہول‘‘ دریافت کیا جس سے روزانہ نئے نئے سیارے جنم لے رہے ہیں‘ اس نے اس بلیک ہول میں ایسی شعاعیں بھی دریافت کیں جو کائنات میں بڑی بڑی تبدیلیوں کا باعث بن رہی ہیں‘ یہ شعاعیں سٹیفن ہاکنگ کی مناسبت سے ’’ہاکنگ ریڈایشن‘‘ کہلاتی ہیں‘ وہ فزکس اور ریاضی کا ایکسپرٹ ہے اور دنیا کے تمام بڑے سائنسدان اسے اپنا گرو سمجھتے ہیں لیکن یہ اس کی زندگی کا محض ایک پہلو ہے‘ اس کا اصل کمال اس کی بیماری ہے‘ وہ ایم ایس سی تک ایک عام درمیانے درجے کا طالب علم تھا‘ اسے کھیلنے کودنے کا شوق تھا‘ وہ سائیکل چلاتا تھا‘ فٹ بال کھیلتا تھا‘ کشتی رانی کے مقابلوں میں حصہ لیتا تھا اور روزانہ پانچ کلومیٹر دوڑ لگاتا تھا۔ وہ 1963ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہا تھا‘ وہ ایک دن سیڑھیوں سے نیچے پھسل گیا‘ اسے ہسپتال لے جایا گیا وہاں اس کا طبی معائنہ ہوا تو پتہ چلا وہ دنیا کی پیچیدہ ترین بیماری ’’موٹر نیوران ڈزیز‘‘ میں مبتلا ہے‘ یہ بیماری طبی زبان میں ’’اے ایل ایس‘‘ کہلاتی ہے۔ اس بیماری کا دل سے تعلق ہوتا ہے ‘ہمارے دل پر چھوٹے چھوٹے عضلات ہوتے ہیں‘ یہ عضلات ہمارے جسم کو کنٹرول کرتے ہیں‘ اس بیماری کے انکشاف سے پہلے سائنسدان دماغ کو انسانی جسم کا ڈرائیور سمجھتے تھے لیکن بیسویں صدی کے شروع میں جب ’’اے ایل ایس‘‘ کا پہلا مریض سامنے آیا تو پتہ چلا انسانی زندگی کا مرکز دماغ نہیں بلکہ قلب ہے اوردنیا کے تمام مذہب ٹھیک کہتے تھے انسان کو دماغ کی بجائے دل پر توجہ دینی چاہئے۔ دل کے یہ عضلات ’’موٹرز‘‘ کہلاتے ہیں‘ اگر یہ ’’موٹرز‘‘ مرنا شروع ہو جائیں تو انسان کے تمام اعضا ء ایک ایک کر کے ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں اور انسان خود کو آہستہ آہستہ مرتے دیکھتا ہے۔ اے ایل ایس کے مریض کی زندگی دو سے تین سال کی مہمان ہوتی ہے ‘ دنیا میں ابھی تک اس کا کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا۔ سٹیفن ہاکنگ 21سال کی عمر میں اس بیماری کا شکار ہوا تھا‘ سب سے پہلے اس کے ہاتھ کی انگلیاں مفلوج ہوئیں‘ پھر اس کے ہاتھ‘ پھر اس کے بازو‘ پھر اس کا بالائی دھڑ‘ پھر اس کے پاؤں‘ پھر اس کی ٹانگیں اور آخر میں اس کی زبان بھی اس کا ساتھ چھوڑ گئی۔یوں وہ 1965ء میں ویل چیئر تک محدود ہو گیا‘ پھر اس کی گردن

دائیں جانب ڈھلکی اور دوبارہ سیدھی نہ ہو سکی۔ وہ 1974ء تک خوراک اور واش روم کیلئے بھی دوسروں کا محتاج ہو گیا۔ آج اس کے پورے جسم میں صرف پلکوں میں زندگی موجودہے ‘ یہ صرف پلکیں ہلا سکتا ہے‘ ڈاکٹروں نے اسے 1974ء میں’’گڈ بائی‘‘ کہہ دیا لیکن ہاکنگ نے شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نے زندہ رہنے‘ آگے بڑھنے اور اس معذوری کے باوجود دنیا کا سب سے بڑا سائنسدان بننے کا فیصلہ کیاچنانچہ اس نے ویل چیئرپر کائنات کے رموز کھولنا شروع کئے تو سائنس حیران رہ گئی۔ کیمبرج کے کمپیوٹر سائنسدانوں نے ہاکنگ کیلئے ’’ٹاکنگ‘‘ کمپیوٹر بنایا‘ یہ کمپیوٹر اس کی ویل چیئر پر لگا دیا گیا‘ یہ کمپیوٹر اس کی پلکوں کی زبان سمجھتا ہے‘ سٹیفن اپنی سوچ کو پلکوں پر شفٹ کرتا ہے‘ پلکیں ایک خاص زاویے اور ردھم میں ہلتی ہیں‘ یہ ردھم لفظوں کی شکل اختیار کرتا ہے‘ یہ لفظ کمپیوٹر کی سکرین پر ٹائپ ہوتے ہیں اور بعدازاں سپیکر کے ذریعے نشر ہونے لگتے ہیں چنانچہ سٹیفن ہاکنگ دنیا کا واحد شخص ہے جو اپنی پلکوں سے بولتا ہے اور پوری دنیا اس کی آواز سنتی ہے۔ سٹیفن ہاکنگ نے پلکوں کے ذریعے اب تک بے شمار کتابیں لکھیں‘ اس نے ’’کوانٹم گریوٹی‘‘ اور کائناتی سائنس (کاسمالوجی) کو بے شمار نئے فلسفے بھی دئیے‘ اس کی کتاب ’’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘‘ نے پوری دنیا میں تہلکا مچا دیاتھا‘ یہ کتاب 237 ہفتے دنیا کی بیسٹ سیلر کتاب رہی اوردنیا بھر میں ناول اور ڈرامے کی طرح خریدی اور پڑھی گئی۔ سٹیفن ہاکنگ نے 1990ء کی دہائی میں ایک نیا کام شروع کیا‘ اس نے مایوس لوگوں کو زندگی کی خوبصورتیوں کے بارے میں لیکچر دینا شروع کئے‘ دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں‘ ادارے اور فرمز ہاکنگ کی خدمات حاصل کرتی ہیں‘ ہاکنگ کی ویل چیئر کوسینکڑوں ‘ہزاروں لوگوں کے سامنے سٹیج پر رکھ دیا جاتا ہے اور وہ کمپیوٹر کے ذریعے لوگوں کو بتاتا ہے ’’اگر میں اس معذوری کے باوجود کامیاب ہو سکتا ہوں‘اگر میں میڈیکل سائنس کو شکست دے سکتا ہوں‘ اگرمیں موت کا راستہ روک سکتا ہوں تو تم لوگ جن کے سارے اعضاء سلامت ہیں‘ جو چل سکتے ہیں‘ جودونوں ہاتھوں سے کام کر سکتے‘ جوکھا پی سکتے ہیں‘ جو قہقہہ لگا سکتے ہیں اورجو اپنے تمام خیالات دوسرے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں وہ کیوں مایوس ہیں‘ آپ نے ناکامی کو ناکامی کیوں تسلیم کر لیا‘‘۔ ہاکنگ کے یہ الفاظ مردہ جسموں میں زندگی کی لہر دوڑا دیتے ہیں اور وہ مایوسی کی چادر اتار کر زندگی کے میدان میں اتر جاتے ہیں۔

صدر اوباما نے 12اگست 2009ء کو سٹیفن ہاکنگ کو امریکا کا سب سے بڑا سویلین ایوارڈ صدارتی تمغہ برائے آزادی (پریذیڈنشل میڈل آف فریڈم) پیش کیا اور میں نے جوں ہی صدر اوباما کو سٹیفن ہاکنگ پر جھکتے دیکھا تو میں بے اختیار تالیاں بجانے پر مجبور ہو گیاکیونکہ سٹیفن ہاکنگ میرے سمیت دنیا کے ہر اس شخص کا محسن ہے جو مشکل کو نا ممکن سمجھتے تھے اور جنہیں ہاکنگ نے بتایا تھا حوصلہ اللہ تعالیٰ کی وہ نعمت ہے جس کے ذریعے کوئی بھی انسان نا ممکن کو ممکن بنا سکتا ہے ۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…