جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

دی لیڈر

datetime 16  اپریل‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل آمدنی میں پورے خاندان کا معاشی بوجھ اٹھانا مشکل تھا اور پھر اوپر سے معذور بچے کی پیدائش‘ پورے محلے کے منہ سے ”ہائے رام“ نکل گیا‘ بچہ پیدائشی اندھا بھی تھا اور کمزور بھی‘ پورے خاندان کا خیال تھا ہم یہ بچہ نہیں پال سکیں گے چنانچہ ہمیں گلہ دبا کر اسے قتل کر دینا چاہیے لیکن والد نیک دل انسان تھا‘ اس نے بچے کو معذوری کے باوجود قبول کر لیا اور یوں سری کانت کو زندہ رہنے کا سر ٹیفکیٹ مل گیا‘ آندھرا پردیش کے سری کانت بولا کےلئے یہ سر ٹیفکیٹ ضروری تھا‘ کیوں؟ کیونکہ اس نے آگے چل کر دنیا بھر کے اندھوں کےلئے ٹارچ بننا تھا‘ ان اندھوں کےلئے جن کےلئے معاشرے کے پاس اندھیروں کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور جو زندگی بھر زندگی کو اندھیری گلیوں میں ٹٹولتے رہتے ہیں اور مرنے سے پہلے دہائیوں تک تھوڑا تھوڑا مرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ حیات کی مٹکی خالی ہو جاتی ہے‘ سری کانت بولا نے ان لوگوں کےلئے مشعل بننا تھا‘ یہ سری کانت بولا کی کہانی ہے۔
یہ بچہ 1992ءمیں آندھرا پردیش کے گاﺅں سیتا راما پورم میں پیدا ہوا‘ یہ پیدائشی نابینا تھا‘ وزن بھی خطرناک حد تک کم تھا‘ والد کی ماہانہ آمدنی 1600 روپے تھی چنانچہ رشتے داروں اور محلے داروں نے مشورہ دیا ”بچے کو گلہ دبا کر قتل کر دو‘ تم یہ بچہ نہیں پال سکو گے“ یہ مشورہ عقل مندانہ تھا‘ بھارت میں آج بھی معذور اور بدصورت بچوں بالخصوص بچیوں کو پیدائش کے بعد قتل کر دیا جاتا ہے‘ لوگ اسے برا نہیں سمجھتے لیکن سری کانت کا والد نہ مانا‘ اس نے بچے کو پالنے بلکہ اعلیٰ تعلیم دینے کا فیصلہ کر لیا‘ باپ اس کا واحد سہارا تھا‘ والد نے اس کا ہاتھ تھاما اور اسے بولنا‘ چلنا‘ پھرنا اور ٹٹول کر چیزوں کی ماہیت کو سمجھنا سکھا دیا‘ سری کانت جب سکول جانے کی عمر کو پہنچا تو والد نے اسے گاﺅں کے سکول میں داخل کرا دیا لیکن سکول میں اس کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز سلوک کیا جاتا تھا‘ وہ آخری بینچ پر بیٹھتا تھا‘ استاد اس سے مخاطب ہونا پسند نہیں کرتے تھے اور بچے اس کے ساتھ کھیلنے سے انکار کر یتے تھے‘ وہ سکول میں اچھوت بن کر رہ گیا‘ والد نے اس کی حالت دیکھی تو اس نے معذور بچوں کا سکول تلاش کرنا شروع کر دیا‘ سیتا راما پورم سے معذور بچوں کا قریب ترین سکول حیدرآباد میں تھا‘ والد نے اس کی انگلی پکڑی اور اسے حیدر آباد چھوڑ آیا‘ وہ سکول کے بورڈنگ ہاﺅس اور کلاس رومز تک محدود ہو گیا‘ سری کانت کو اللہ تعالیٰ نے ذہانت کی دولت سے مالا مال کررکھا تھا‘ وہ میٹرک میں 90 فیصد نمبر لے گیا‘ وہ انٹر میڈیٹ میں سائنس رکھنا چاہتا تھا لیکن سائنس کے مضامین کےلئے آنکھیں ضروری ہوتی ہیں اور قدرت نے اسے اس نعمت سے محروم کر رکھا تھا لہٰذا صوبے کا کوئی کالج اسے سائنس میں داخلہ دینے کےلئے تیار نہیں تھا‘ بولا نے مایوس ہو نے کے بجائے اس انکار کو چیلنج سمجھا اور وہ عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے لگا‘ یہ کوشش کارگر ثابت ہوئی اور کالج سری کانت بولا کو داخلہ دینے پر مجبور ہوگئے‘ کالج کی انتظامیہ عدالتی حکم کی وجہ سے اس کے خلاف تھی‘ اس کی کوشش تھی یہ فیل ہوجائے لیکن کالج کے ایک استاد کو اس پر رحم آ گیا اور اس نے اس کےلئے لیکچرز کی آڈیو کیسٹیں تیار کرنا شروع کر دیں‘ سری کانت یہ کیسٹیں سنتا چلا گیا اور کامیاب ہوتا گیا‘ کالج میں اس نے شطرنج اور کرکٹ بھی سیکھ لی اور اس میں بھی کمال کر دیا‘ بولا کو اس دوران صدر عبدالکلام کے منصوبے ”لیڈ انڈیا“ میں بھی کام کرنے کا موقع ملا‘ سری کانت نے 98 فیصد نمبر لے کر ایف ایس سی کر لی‘ یہ معجزہ تھا لیکن یہ معجزہ اپنے ساتھ نئے مسائل لے آیا‘ وہ اب انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں داخلہ لینا چاہتا تھا‘ وہ میرٹ پر بھی پورا اترتا تھا لیکن انسٹی ٹیوٹ نے آج تک کسی نابینا طالب علم کو داخلہ نہیں دیا تھا‘ سری کانت کو انکار کر دیا گیا‘ سری کانت نے بہت کوشش کی‘ عدالتوں کے دروازے بھی کھٹکھٹائے لیکن کامیابی نہ ہوئی اور وہ گھر بیٹھنے پر مجبور ہو گیا‘ اس دوران امریکا کی یونیورسٹی ماساچوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کو اس کے بارے میں معلوم ہوا اور یونیورسٹی نے اسے سو فیصد وظیفہ آفر کر دیا‘ سری کانت بولا نے یہ پیش کش قبول کر لی‘ یہ امریکا چلا گیا۔
امریکا میں اس نے 2012ءمیں گریجوایشن کی‘ امریکا کی بے شمار یونیورسٹیوں‘ کمپنیوں اور کارپوریشنز نے اسے نوکری کی آفر کی لیکن اس نے بھارت واپس آنے کا فیصلہ کر لیا‘ بھارت آنے سے پہلے اس نے یونیورسٹی کے استادوں سے ملاقات کی اور ایک ایسے ادارے کا منصوبہ ان کے سامنے رکھا جو نابینا نوجوانوں کو نوکری بھی دے اور انہیں ہنر بھی سکھائے‘ استادوں کو یہ منصوبہ پسند آیا‘ انہوں نے یہ پراجیکٹ یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ میں پیش کر دیا‘ سینڈیکیٹ نے اس کی منظوری دے دی یوں یونیورسٹی ے سری کانت بولا کو منصوبے کےلئے ابتدائی رقم دے دی‘ وہ واپس آیا اور حیدر آباد میں ایک چھوٹا سا دفترلیا‘ پانچ کمپیوٹر رکھے اور معذور لوگوں کو کمپیوٹر کی تعلیم دینا شروع کر دی‘ یہ ادارہ چل پڑا‘ سری کانت نے اس میں چند دوسرے شعبے بھی متعارف کرا دیئے‘ بولا کے جذبے کو دیکھ کر بھارت کے کھرب پتی رتن ٹاٹا نے اس کی کمپنی میں سرمایہ کاری کر دی اور یوں بولا کی کمپنی دیکھتے ہی دیکھتے ”بولانت انڈسٹریز“ میں تبدیل ہو گئی‘ یہ کمپنی ان پڑھ اور معذور لوگوں کو ملازمت دیتی ہے‘ یہ انہیں کاغذ کو ری سائیکل کرنے اور درختوں کے پتوں سے پیکنگ مٹیریل بنانے کا ہنر سکھاتی ہے‘ یہ لوگ یہ ہنر سیکھنے کے بعد کمپنی کےلئے اشیاءبناتے ہیں اور یہ اشیاءملک کے بڑے گروپ خریدتے ہیں‘ سری کانت کی کمپنی چار سال میں تین ریاستوں آندھرا پردیش‘تلنگانہ اور کرناٹکا تک پھیل گئی‘ ملازمین کی تعداد 450 ہے‘ یہ تمام لوگ معذور ہیں‘ صرف مینجمنٹ کے لوگ نارمل ہیں‘ کمپنی کی مالیت 50 کروڑ تک پہنچ گئی ہے‘ یہ اگلے برس تک ایک ارب روپے تک چلی جائے گی‘ سری کانت بولا کی خواہش ہے‘ اس کی کمپنی میں کم از کم 20 ہزار معذور لوگ ملازم ہوں‘ ان میں سے آدھے لوگوں کے پاس ذاتی گھر اور ذاتی گاڑیاں ہوں اور کمپنی کی مالیت کم از کم 20 ارب روپے ہو‘ سری کانت بولا دن رات اس مشن کی تکمیل میں سرگرم ہے‘ اس کی گروتھ اور ترقی سے اس کے والدین بھی خوش ہیں اور وہ بہن بھائی بھی جنہیں اللہ تعالیٰ نے نارمل پیدا کیا تھا لیکن وہ مکمل ہونے کے باوجود زندگی میں ترقی نہ کر سکے‘ وہ اعلیٰ تعلیم بھی حاصل نہ کر سکے اور زندگی میں خوشحالی کی منزل بھی نہ پا سکے‘ یہ نارمل بہن بھائی آج سری کانت بولا کی کامیابی پر فخر کرتے ہیں‘ یہ سینہ پھلا کر اس کا نام لیتے ہیں اور گردن اکڑا کر کہتے ہیں‘ ہم ” سری کانت بولا کے بھائی ہیں“۔
آپ سری کانت بولا کی کہانی کو دوبارہ پڑھیں‘ آپ کو اس میں تین پہلو ملیں گے‘ پہلا ایلیمنٹ بولا کی معذوری ہے‘ دنیا کا ہر انسان معذور ہوتا ہے‘ ہم میں سے کوئی شخص مکمل نہیں‘ کائنات کے اس ہیر پھیر میں صرف ایک ذات مکمل ہے اور اس ذات کا نام خدا ہے‘ اس کے علاوہ ہر چیز نامکمل‘ ادھوری اور معذور ہے‘ ہم سب لوگ کوئی نہ کوئی معذوری لے کر پیدا ہوتے ہیں‘ بس ہم میں سے کچھ لوگوں کی معذوری دوسروں کو نظر آ جاتی ہے اور باقی کی معذوری کپڑوں‘ وجود اور دماغ میں چھپی رہتی ہے اور یہ صرف ان کے قریبی لوگوں کو دکھائی دیتی ہے یا پھر اسے ڈھونڈنا پڑتا ہے‘ بولا بھی ہماری طرح ایک معذور انسان تھا لیکن اس کی معذوری دوسروں کو دکھائی دیتی تھی‘ یہ نابینا تھا مگر یہ دوسرے معاملات میں زندگی میں ایک مکمل انسان تھا‘ دوسرا پہلو‘ بولا کو زندگی میں تین ہیلپنگ ہینڈ ملے‘ والد‘ ایف ایس سی کا استاد اور امریکن یونیورسٹی‘ والد نے سولہ سو روپے کی آمدنی کے باوجود اسے پالنے کا فیصلہ کیا‘ ایف ایس سی میں اسے ایک ایسا استاد مل گیا جس نے تمام استادوں کے لیکچرز کی آڈیو ریکارڈنگ اس کے حوالے کر دی‘ بولا نے یہ آڈیو سن کر 98 فیصد نمبر لے لئے اور آخر میں وہ ماسا چوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی جس نے تاریخ میں پہلی بار کسی نابینا شخص کو سو فیصد وظیفے پر داخلہ دے دیا‘ بولا یونیورسٹی گیا‘ استادوں نے اس کی مدد کی اور اس نے اندھے پن کے باوجود کمال کر دیا اور بولا کی کہانی کا تیسرا پہلو اس کا حوصلہ‘ اس کی مستقل مزاجی اور اس کا شکست نہ ماننے کا جذبہ ہے‘ یہ پیدائشی طور پر معذور اور کمزور تھا لیکن اس نے کمزوری اور معذوری کو اپنے راستے کا پتھر نہ بننے دیا‘ یہ مستقل مزاجی سے ڈٹا رہا اور ٹٹول ٹٹول کر آگے بڑھتا رہا‘ نظام جہاں بھی اس کے راستے میں کھڑا ہوا اس نے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا‘ یہ روز دروازوںپر دستک دیتا رہا‘ دروازے کھل جاتے تو ٹھیک ورنہ یہ عدالت کی دہلیز پر بیٹھ جاتا یہاں تک کہ یہ کامیاب ہو گیا مگر کامیابی کے بعد اس نے ایک اور کمال کیا‘ یہ اپنے دہی کا کنڈا اٹھا کر گھر نہیں گیا‘ اس نے اپنی کامیابی کو جاگ بنا دیا‘ یہ امریکا سے واپس آیا‘ اس نے کمپیوٹر ٹریننگ کا چھوٹا سا ادارہ بنایا اور اپنے جیسے معذور تلاش کر کے انہیں بھی سری کانت بولا بنانے لگا‘ یہ اس کی کہانی کا شاندار ترین پہلو ہے اور یہ پہلو ثابت کرتا ہے‘ آپ جب کامیابی کو اپنی ناک کی نتھ یا کان کی بالی بنا لیتے ہیں تو آپ خودغرض ہو جاتے ہیں‘ ایک خوش حال اور کامیاب خودغرض لیکن جب آپ اپنی کامیابی کو دوسروں میں بانٹنے لگتے ہیں‘ آپ دوسروں کو سکھانے کا بیڑا اٹھا لیتے ہیں تو پھر آپ لیڈر بن جاتے ہیں‘ آپ انقلابی ہو جاتے ہیں اور سری کانت بولا ایک لیڈر ہے‘ ایک سچا اور کھرا انقلابی لیڈر۔
کاش ہم لوگ سری کانت بولا جیسے لیڈر کی تصویر اپنی میزوں پر لگا لیں اور روز اس تصویر کو دیکھیں اور اپنے آپ سے دو سوال پوچھیں ”میں جسمانی لحاظ سے بولا سے بہتر ہوں لیکن میں اس سے پیچھے ہوں‘ کیوں؟ اور میں بھی کامیاب ہوں لیکن میں کامیابی کو سری کانت بولا کی طرح دوسروں کے ساتھ شیئر نہیں کررہا ‘ کیوں؟“ مجھے یقین ہے یہ دو سوال ہمیں چند ماہ میں ذہنی‘ جسمانی اور روحانی معذوری سے آزاد کر دیں گے‘ ہم بھی سری کانت بولا بن جائیں گے‘ ایک ایسا سری کانت بولا جسے اس کا اندھا پن بھی روشنی بانٹنے سے نہیں روک سکا۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…