وہ کرسی صدارت سے اٹھے اور دونوں کونے میں چلے گئے‘ ہم آواز تو نہیں سن سکتے تھے لیکن وہاں جو کچھ ہو رہا تھا وہ حرکتوں سے صاف نظر آ رہا تھا‘ ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ سر جھکا کر کھڑے تھے اور ڈاکٹر عاصم ہاتھ ہلا ہلا کر ان کی طبیعت صاف کر رہے تھے۔
ہم اگر حضرت زبیر بن عوام ؓ سے سرڈاکٹر ضیاءالدین احمد تک اور ڈاکٹر اعجاز فاطمہ سے ڈاکٹر عاصم کی زندگی کے پہلے حصے تک اور پھر ڈاکٹر عاصم سے لے کر مشیر ڈاکٹر عاصم تک کا سفر دیکھیں تو تاسف اور افسوس کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا‘ اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر عاصم کو حسب نسب بھی دیا تھا‘ نام بھی‘ اعلیٰ تعلیم بھی اور ذہانت بھی لیکن اے سی کمرے کی ایک قربانی نے ان سے یہ سب کچھ چھین لیا‘ وہ تمام عزت جو خاندان نے حضرت زبیر بن عوامؓ سے لے کر سرڈاکٹر ضیاءالدین تک کمائی تھی وہ چند بینک اکاﺅنٹس‘ چند ایکڑ زمین اور سائرن بجاتی چند گاڑیوں کے نیچے کچلی گئی‘ میں نے زندگی میں اکثر لوگوں کی صدیوں کی عزت کاغذ کے چند ٹکڑوں کے ہاتھوں پرزے پرزے ہوتے دیکھی اور ڈاکٹر عاصم اس کی بدترین مثال ہیں‘ دولت بری چیز نہیں‘ یہ انسان کے سکون اور آرام کی محافظ ہے لیکن غیر ضروری دولت انسان کو اپنا چوکیدار بنا لیتی ہے اور انسان جب دولتی کا چوکیدار بن جائے تو یہ دولت کو خرچ نہیں کرتا دولت اسے خرچ کرتی ہے اور ڈاکٹر ضیاءالدین احمد کا نواسا اور ڈاکٹر اعجاز فاطمہ کا بیٹا دولت کے ہاتھوں خرچ ہو گیا۔
وہ جو دولت کے ہاتھوں خرچ ہو گیا
6
ستمبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں