بدھ‬‮ ، 25 جون‬‮ 2025 

سیدہ شہربانو سلام اللہ علیہا فارس کی عظیم شہزادی کی حیات مبارکہ

datetime 5  جنوری‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

تاریخ کے چہرے پر نقاب آویزاں ہے‘ کسی بھی مؤرخ کیلئے اس کو سرکانا اور ماضی میں جو حالات و واقعات ظہور پذیر ہوئے انہیں اصل رنگ و روپ میں پیش کرنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے لیکن تاریخ اسلامی کے چند واقعات ایسے ہیں جنہیں سمجھنے کیلئے کسی بھی محنتِ شاقہ کی ضرورت نہیں اور تین شادیاں ایسی ہیں جنکی اہمیت سے بھیانکار ممکن نہیں۔

050330-A-4783J-007

اول : پیغمبرِ اسلام حضرت محمد  کی شادی حضرت خدیجۃالکبریٰؓ کے ساتھ۔جب تک وہ حیات رہیں پیغمبرِ اسلام نے دوسری شادی نہیں کی۔
دوئم: حضرتِ علی کرم اللہ وجہہ کی شادی خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہراؓکیساتھ۔ جب تک آپ بقیدِ حیات رہیں حضرت علیؓ نے دوسری شادی نہیں کی ۔
سوئم: سیدنا امام حسینؓ کی شادی ایران کی عظیم شہزادی سیدہ شہربانو کے ساتھ۔ جب تک وہ آپ کے عقد میں رہیں‘ شہزادۂ کونین نے دوسری شادی نہ کی۔ اسی بدولت ان گھروں کی ازواجِ مطہرات کو عزت و تکریم حاصل ہوئی ۔

سیدنا امام حسینؓ کی شادی کے واقعات پر عقلِ انسانی دنگ رہ جاتی ہے کیونکہ اہلِ عرب میں رواج عام تھا کہ وہ اپنے بچوں کو جب سن بلوغت کو پہنچتے تو اوائلِ عمری میں ہی انہیں شادی کے بندھن میں باندھ دیتے تھے۔امام علی مقامؓ کی عمرِ مبارک 30یا 31سا ل ہو چکی تھی لیکن ابھی تک شادی نہ ہوئی اور جیسے ہی ایران کی عظیم شہزادی شہربانو مدینہ پہنچیں تو پھر شادی میں تاخیر نہ ہوئی ۔ صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ رشتہ آسمانوں پر طے ہوا تھا۔ زمین پر تو دنیاداری کیلئے رسم ادا کی جا رہی تھی۔ آج ہماری اکثریت اس جستجو میں پریشان ہے کہ وہ کیا تاریخی عوامل تھے جن کی بنا ء پر اہلِ ایران اہلِ بیت کی محبتوں کے اسیر ہوئے اور کیوں تشیع مسلک کا پیرہن اوڑھ رکھا ہے ۔ اس کے لئے تاریخ کے دبستان میں جھانکنا ہو گا۔

اسلام سے قبل فارس اور روم دو عظیم سلطنتیں تھیں جن کی آپس میں ہمیشہ مخاصمت رہی جبکہ فارس کو برتری رہی۔ صرف ایک بار سکندرِ اعظم کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانا پڑی پھر 80 سال بعد اہلِ ایران نے اپنی بادشاہت کو بحال کرتے ہوئے اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کر لیا اور سکندرِ اعظم کی باقیات کو سرحدوں سے باہر نکال دیا۔ اس کے بعد ان کے عظیم سپوت اردشیر نے روم پر چڑھائی کرکے اہلِ ایران کی جانب سے حساب بھی برابر کر دیا۔ جتنی بڑی سلطنت سکندرِ اعظم کے زیرِ نگین رہی اتنی ہی وسیع سلطنت اردشیر کے ہاتھ بھی رہی لیکن مغربی مصنفین نے اسے وہ مقام اور مرتبہ نہ دیا جو سکندرِ اعظم کو دیا تھا۔اسی اردشیر کی نسل سے انصاف پسند بادشاہ نوشیر وان عادل نے جنم لیا جس کے عدل و انصاف کی بابت تاریخ عالم متفق ہے ۔ نوشیروان نے اڑتالیس سال بادشاہت کی اور عدل و انصاف کو چار ا طراف پھیلا دیا۔ جب وہ فوت ہوا تو مکہ میں پیغمبرِ اسلام کی عمرِ مبارک 9سال تھی۔ اسی نسبت سے آپؐ نے فرمایا تھا!’’میں دنیا میں اس وقت آیا جب عادل کی حکمرانی تھی‘‘ آپ کے اس قول میں خوشی کا تاثر نمایاں ہے۔
سیدہ شہربانو بنت یزد جرد بن شہریار بن خسرو پرویز بن ہرمز بن نوشیروانِ عادل کا اصل نام شاہِ زنان تھا۔ یہی نام زیادہ افضل اور معتبر ہے لیکن جس نام کو شہرت حاصل ہوئی وہ شہر بانو ہے ۔ آپ کے والد کسریٰ یزد جرد 31ہجری کو اپنی ہی ریاست ’’مرو‘‘ کے حاکم ماہوی کے ہاتھوں ہلاک ہواتواسکا خاندان اور وفا دار سپاہ کا دستہ صوبہ اصطخر میں آکر مقیم ہو گیاجو شرو ع ہی سے اس خاندان کا مضبوط مرکز رہا تھا۔ 33ہجری کو اسی صوبہ میں ’’قارن ‘‘نامی شخص نے مسلمانوں کے خلاف شدید بغاوت کی جسے گورنر عبداللہ بن عامرؓ کے حکم پر شریک بن اعور حارثی نے کچل دیا۔ 34ہجری کے اخیر میں کسریٰ یزد جرد کی زوجہ ملکہ فارس بھی اپنے خاندان کو داغِ مفارقت دے گئیں تواب خاندان میں واحدخاتون شہزادی شہربانو تھیں جو اپنی والدہ کے فراق میں نڈھال تھیں‘وہ شب قیامت کی شب تھی جب آپ مالکِ کون و مکاں سے فریاد کناں ہوئیں تو اسی شب پیغمبرِ اسلام ﷺ کی عظیم دختر سیدہ فاطمۃ الزہراؓ خواب میں آئیں تو تسلی و تشفی دیتے ہوئے کہا !’’بیٹی تم پریشان نہ ہو‘ تمہارے قلعہ پر اسلامی سپاہ کا دستہ حملہ کرے گا‘تمہیں کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا‘ تمہیں مدینہ کی جانب لے جایا جائیگا جہاں تمہارا عقد میرے فرزند حسینؓ سے ہو گا‘‘۔ شہزادی پاک بیدار ہوئیں تو شب کے باقی لمحات جاگتے میں گزار دئیے ۔ خوا ب کے چند ایام بعد اسلامی سپاہ کے ایک دستہ نے آپ کے قلعہ کو محاصرہ میں لے لیا۔ بعد میں گورنر عبداللہ بن عامرؓ کے حکم کے مطابق انہیں عزت و احترام کے ساتھ مدینہ روانہ کیاگیا۔ جب آپ وہاں پہنچیں تو وہاں انتشار و ابتری کا ماحول تھا۔ باہر سے آئے ہوئے باغی خلیفۂ راشد حضرت عثمانِ غنیؓ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ایک روایت کے مطابق یہ جمعہ کا دن تھا اور خلیفۂ راشد نے آپ کا عقد سیدنا امام حسینؓ سے کر دیا۔ یوں آپ اہلِ بیت کے گھر کا حصہ بنیں اور آنے والے نو اماموں کی والدہ ماجدہ کا اعزاز بھی عطا ہوا۔
حضرت علیؓ کرم اللہ وجہہ نے پینتیس ہجری کو خلافت کا منصب سنبھالاتو آپ نے ایران کے چھ صوبوں پر گورنرز تعینا ت کئے اور اپنی بہو شہزادی کو مطلع کیا کہ آپ کے وطن کی جانب اعلیٰ کردار کے حامل اشخاص کو گورنر نامزد کیا گیا ہے ۔ آپ نے درخواست کی کہ ان گورنروں کو حکم دیجئے کہ میرے اہلِ وطن کو باخبر کر دیں کہ کسریٰ یزد جرد کی دختراب مسلمانوں کے خلیفہ کی بہو بن چکی ہے ۔ اب آپ کیلئے یہی مناسب ہے کہ تم سب اسلام کے دامن میں سموجاؤ۔ اس سے قبل تین خلفاء راشدین کے عہد میں ایرانی اس قدر دائرہ اسلام میں داخل نہ ہوئے تھے جتنے چوتھے خلیفۂ راشد کے عہد میں ۔ اسی دوران جنگِ صفین کی تیاری کے لئے حضرتِ علی کرم اللہ وجہہ خود ایران کے دارالحکومت ہمدان تشریف لے گئے اور اسی ہزار کا لشکرِ جرار لے کر صفین کی جانب روانہ ہوئے جس میں اکثریت ایرانیوں کی تھی۔ جنگِ صفین کے بعد آپ نے دونوں صاحبزادوں کو آئندہ کسی بھی جنگ میں شرکت سے منع فرما دیا۔ واپسی پر سیدنا امام حسینؓ مدینہ کی جانب عازمِ سفر ہوئے جہاں اہل بیت کی خواتین پہلے ہی مقیم تھیں۔ مدینہ میں قیام کے دوران آپ نے اپنے ایک جانثار زریر خزاعی سے شہزادی کی وفازاد کنیز شیریں کا عقد کیاجس کا ذکر میرانیس کے مرثییوں میں کثرت سے ملتا ہے ۔ زریر خزاعی کو مدینہ میں اہل بیت کی حفاظت پر مامور کرتے ہوئے خود کوفہ تشریف لے گئے لیکن ایک سال بعد اڑتیس ہجری کو زریرخزاعی مدینہ سے کوفہ آیا اور امام کو اطلاع دی کہ آپ کے گھر میں آپ کے جانشین کی آمد کسی بھی وقت متوقع ہے۔سیدنا امام حسینؓ نامساعد حالات میں بابا کو چھوڑ کر جانے کیلئے تیار نہ ہوئے تو اس نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اس بابت آگاہ کیاتو آپ نے امام عالیٰ مقامؓ کو فی الفور مدینہ جانے کا حکم دے دیا۔ حسینؓ اپنے بابا کے حکم کے سامنے ہمیشہ سر تسلیمِ خم کر دیتے تھے۔ آپ اٹھارہ شعبان اڑتیس ہجری کو مدینہ پہنچے جبکہ آپ کے فرزند علی‘ زین العابدین پانچ شعبان کو اہلِ بیت کے گھر کو روشن کر چکے تھے۔ جیسے ہی امام مدینہ میں قدم رنجہ ہوئے تو وہاں کی فضا سوگوار تھی ۔ آپ کے ایک غلام نے آنسوؤں و آہوں میں بتایا کہ غریبوں پر کرم ستانیاں کرنے والی عظیم شہزادی رحلت فرما چکی ہیں۔ آپ نے اس جانفزا خبر کو صبرو تحمل کے ساتھ سنا اور آسمان کی جانب چہرہ مبارک کر کے فقط اتنا کہا !’’اے مالک ،اے آقا ! اگر تو اس پر راضی ہے تو ہم تیری منشا پر خوش ہیں‘‘۔ آپ نے اپنی عظیم زوجہ کا جنازہ خود پڑھایا اور اپنے مبارک ہاتھوں سے اپنی والدہ ماجدہ کے پہلو میں مدفون کیا۔ اہلِ ایران جو اپنے بادشاہوں کو اپنا ہیرو گردانتے تھے سانحہ کربلا کے بعد ان کو ہمیشہ کیلئے فراموش کر دیا اور نواسہ رسول اور ان کے بہتّر جانثاروں کو اپنے اذہان و قلوب میں ہمیشہ کیلئے بسا لیا۔ اہل ایران نے چودہ سوسال قبل اپنے سینوں میں اہلِ بیت کیلئے جو شگوفے کھلائے وہ آج بھی اسی طرح ترو تازہ ہیں

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کرپٹوکرنسی


وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…

نوے فیصد

’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…

گوٹ مِلک

’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے…