ٹورنٹو(این این آئی)ایک کینیڈین انتہا پسند شخص نے مسلمانوں سے نفرت کی بنا پر پاکستانی خاندان پر گاڑی چڑھا دی۔میڈیا رپورٹ کے مطابق استغاثہ کی جانب سے منگل کو اختتامی دلائل میں کہا کہ ایک کینیڈین شخص نے مسلمانوں کو مارنے کا تعاقب کررہا تھا کہ اس نے اپنے ٹرک سے شام کے وقت ایک خاندان کے افراد پر گاڑی چڑھادی۔نیتھنیل ویلٹ مین نامی شخص جس کی عمر ابھی 22 سال ہے، اس پر جون2021 سے لندن، اونٹاریو میں مقدمہ چل رہا ہے۔
اس کیس میں پہلی بار کینیڈا کی جیوری سے کہا گیاکہ وہ سفید فام بالادستی سے متعلق دہشت گردی کا اقدام اٹھانے پرغورکریں۔ قتل کا اعتراف کرنے پر ملزم کے وکیل نے کہا کہ اسے کم سے کم سزا ملنی چاہیے۔پراسیکیوٹر فریزر بال نے جیوری کو بتایا کہ ان کے پاس ہر وہ چیز موجود ہے جس کی آپ کو ممکنہ طور پر اس کیس میں سزا سنانے کی ضرورت ہے، گواہوں نے پولیس کے سامنے اعتراف بھی کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملزم ویلٹ مین نے اپنے کمپیوٹر پر ایک نوٹ لکھا تھا، جس میں اس نے سفید فام قوم پرستی کی حمایت کی تھی اور مسلمانوں سے اپنی نفرت کو بیان کیا تھا۔پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ملزم نے ایک سپاہی کی وردی پہنی ہوئی تھی اور مسلمانوں کو مارنے کی منصوبہ بندی کررہا تھا۔کرائون اٹارنی نے کہا کہ جب ملزم ویلٹ مین لندن کی ایک سڑک پر افضل کے خاندان کے پاس سے گزرا، تو اس نے اپنا ٹرک گھمایا اور تیز رفتاری کے ایک خاندان کے افراد کو کچل دیا۔
حادثے میں 46 سالہ سلمان افضل، ان کی اہلیہ 44 سالہ مدیحہ سلمان، 15 سالہ بیٹی یمنہ اور اس کی دادی 74 سالہ طلعت افضل جان کی بازی ہار گئے، ایک نو سالہ بچہ شدید زخمی ہوگیا۔واقعے کے بعد ملزم ویلٹ مین کو قریبی پارکنگ میں گرفتار کیا گیا اور پولیس کو بتایا کہ وہ امیگریشن سے آنے والے مسلمانوں کوایک مضبوط پیغام بھیجنا چاہتا ہے۔دفاعی وکیل کرسٹوفر ہکس نے دلیل دی کہ ملزم ویلٹ مین ذہنی عارضے اور بچپن کے صدمات کا شکار تھا، جس کی وجہ سے ڈپریشن اور اضطراب پیدا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ ان لوگوں کی موت کا ذمہ دار ہے لیکن اس کے پاس قتل یا دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی اور سوچنے کی استعداد نہیں تھی۔ملزم ویلٹ مین کو فرسٹ ڈگری کے قتل کا جرم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ قتل عام کی سزا زیادہ سے زیادہ سات سال قید ہے۔2017 میں کیوبیک سٹی کی ایک مسجد میں فائرنگ کے واقعے کے بعد سے یہ کینیڈا میں سب سے مہلک مسلم مخالف حملہ تھا جس میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس شوٹنگ کے مرتکب پر دہشت گردی کا الزام نہیں لگایا گیا تھا۔