مقبوضہ بیت المقدس (این این آئی)اسرائیل نے فلسطینی مصنوعات کی برآمدات پر پابندی لگا کر تجارتی جنگ کا آغاز کردیا۔میڈیارپورٹ کے مطابق فلسطین کے وزیر زراعت ریاض العطاری نے بتایا کہ فلسطینی مصنوعات اردن کے راستے عالمی منڈی تک پہنچائی جاتی ہیں تاہم اسرائیل نے تمام برآمدات کنند گان اور متعلقہ فریقین کو مطلع کیا کہ فلسطینی زراعت کی اردن کے راستے برآمدات پر پابندی ہوگی۔
عالمی میڈیا کے مطابق تل ابیب حکومت کی جانب سے فلسطینی پیداوار کی برآمد پر پابندی کا آغاز ہوچکا ہے۔دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی کی وزارت اقتصادیات نے وفا کے ذریعے جاری ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی حکام نے فلسطین کی زرعی مصنوعات سے بھرے متعدد ٹرک نے اردن کی کراسنگ لائن سے واپس بھیج دئیے۔واضح رہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے اور اردن کے درمیان واحد راستہ ہے جس پر اسرائیلی فورسز کا قبضہ ہے اورمقبوضہ فلسطینی علاقوں میں لوگوں کی آمد اور سامان کی ترسیل و اخراج کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ اسرائیل کی جانب سے عائد کردہ پابندی میں زیتون کا تیل، کھجوریں اور دواؤں کی جڑی بوٹیاں شامل ہیں۔فلسطین دنیا کے 100 منڈیوں میں 60 کے لگ بھگ زرعی مصنوعات برآمد کرتا ہے۔علاوہ ازیں اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقوں کے نقشے بنانا شروع کر دیے ہیں۔اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ ہم پہلے ہی اس علاقے کی نقشہ سازی کررہے ہیں جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کے مطابق ہے۔انہوں نے کہا کہ امن منصوبے کے مطابق سارے حصے اسرائیل کا حصہ بن جائیں گے اور اس میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔اسرائیلی وزیراعظم نے زور دیا کہ اسرائیل کو جس علاقے سے جوڑنے کا ارادہ ہے اس میں مغربی کنارے کی تمام بستیوں اور وادی اردن کو بھی شامل کیا جائے گا۔امریکا کی جانب سے پیش کردہ امن منصوبے میں مغربی پٹی میں اسرائیلی آباد کاری کو تسلیم کرلیا گیا اور ساتھ ہی مغربی کنارے میں نئی بستیاں آباد کرنے پر 4 سال کی پابندی لگادی۔
فلسطینی اتھارٹی نے دو روز قبل امریکا اور اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی سمیت تمام تعلقات ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔بعد ازاں مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں کہا گیا تھا کہ منصوبہ امن کے لیے ناکافی ہے اور عرب لیگ اس منصوبے پر عمل درا?مد کے لیے امریکا سے تعاون نہیں کرے گی۔انہوں نے یقین دلایا تھا کہ فلسطین کی ریاست 1967 کی مشرق وسطیٰ جنگ میں اسرائیل کی جانب سے قبضہ کی گئی زمین پر قائم ہوگی اور مشرقی یروشلم دارالحکومت ہوگا۔اجلاس میں مصر، سعودی عرب، اردن، عراق، لبنان سمیت دیگر ممالک کے وزرائے خارجہ کے علاوہ فلسطین کے صدر محمود عباس بھی شریک تھے۔