اسلام آباد/دوحہ (این این آئی) طالبان او ر امریکہ نے تقریباً تین ماہ کے تعطل کے بعد باضابطہ طورپر قطر میں امن مذاکرات دوبارہ شروع کر دیئے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ کابل میں ایک طالبان حملے میں امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سات ستمبر کو طالبان کے ساتھ مذاکرات ختم کر نے کا اعلان کیا تھا۔ایک امریکی اہلکار نے میڈیا کو بتایا کہ طالبان کیساتھ ہفتے کو مذاکرات کا دوبارہ آغاز کر دیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ مذاکرات میں توجہ تشدد کے خاتمے کی تجاویز پر ہوگی تاکہ بین الافغانی مذاکرات اور ایک جنگ بندی پر اتفاق ہو سکے۔امریکی اہلکار نے مزید تبصرہ کر نے سے انکار کیا۔ اس سے پہلے طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین اور امریکی وزیر خارجہ نے مذاکرات کی بحالی کا عندہ دیا تھا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے کو بگرام کے فوجی اڈے پر امریکی فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ انہوں نے طالبان کے ساتھ دوبارہ مذاکرات شروع کر نے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ افغان مسئلے کا پرامن حل نکالا جاسکے۔طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے مذاکرات سے پہلے کہاتھا کہ طالبان جنگ بندی کے اعلان سے پہلے اس معاہدے پر دستخط کا خواہاں ہے جس پر امریکہ اور طالبان نے رواں سال اگست میں اتفاق کیا تھا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی یکطرفہ طورپر مذاکرات روکنے کی وجہ سے معاہدے پر دستخط نہیں ہوسکے تھے۔شاہین کے مطابق اس سے پہلے معاہدے پر دستخط کیلئے تیرہ ستمبر کی تاریخ مقرر کی گئی تھی اور دستخط کے بعد طالبان نے اگلے دن سے غیر ملکی افواج کے خلاف جنگ بندی کا آغاز کر نا تھا۔ایک طالبان رہنما کے مطابق امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے طالبان کے ساتھ اسلام آباد اور بعد میں قطر میں غیر رسمی نشستوں میں ایک ہفتے کی جنگ بندی کی تجویز پیش کی تھی تاکہ باضابطہ مذاکرات سے پہلے اعتماد بحال ہو۔یاد رہے کہ اعتماد سازی کیلئے امریکہ اور طالبان نے گزشتہ ماہ قیدیوں کا تبادلہ کیا تھا
جس میں طالبان نے ایک امریکی اور آسٹریلوی پروفیسروں کو رہا کیا تھا جنہیں اگست 2016ء میں کابل سے اغواء کیا گیا تھا۔پروفیسر وں کے تبادلے میں طالبان کے تین رہنماؤں کو رہا کیاگیا تھا اور قیدیوں کے تبادلے نے مذاکرات کی دوبارہ بحالی میں اہم کر دارادا کیا جس کی ثالثی پاکستان نے کی تھی۔انس حقانی جوکہ رہائی پانے والے تین طالبان رہنماؤں میں شامل ہیں نے ایک حالیہ انٹرویو میں قیدیوں کے تبادلے میں پاکستان اور قطر کے کر دار پردونوں ممالک کا شکریہ ادا کیا تھا۔
طالبان اور امریکہ کے درمیان ہفتے کو باضابطہ مذاکرات شروع ہونے کو اہم تصور کیا جارہا ہے کیونکہ اس میں امن معاہدے پر دستخط کا قوی امکان ہے۔صدر ٹرمپ نے آئندہ سال نومبر میں صدارتی انتخابات سے پہلے افغانستان سے زیادہ فوجیوں کے انخلاء کاوعدہ کیا تھا اور خیال کیا جاتا ہے کہ نئے سال کے آغاز میں انتخابی مہم سے پہلے وہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کی کوشش کرینگے۔طالبان کا مطالبہ تمام غیر ملکی افواج کا ہے اور امریکہ کا طالبان سے مطالبہ ہے کہ وہ آئندہ کسی تنظیم کو امریکہ اور ان کے اتحادیوں اور کسی ملک کے خلاف افغانستان کی سر زمین استعمال کر نے کی اجازت نہ دیں۔