تہران (این این آئی)ایرانی وزارت ثقافت نے اعتراف کر لیا ہے کہ ملک میں آزاد میڈیا ادارے تقریبا نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایرانی ٹی وی کے مطابق یہ بات ملکی وزارت ثقافت کے ذرائع ابلاغ پر تحقیق کے شعبے کے سربراہ حامد رضا سایہ پرور نے اپنے ایک انٹرویو میں کہی۔وزارت ثقافت کے اس اعلیٰ اہلکار کے مطابق ایران میں زیادہ تر میڈیا ادارے یا تو ہیں ہی ریاستی ملکیت اور سرکاری انتظام میں
یا پھر ان کے لیے مالی وسال ریاست فراہم کرتی ہے۔ حامد رضا سایہ پرور نے کہا کہ ایران کے اکثر میڈیا ہاؤسز سیاسی جماعتوں کے ترجمان کا کام کرتے ہیں۔ان کے مطابق عوام کو اطلاعات کی ترسیل کے ذمے دار یہ ادارے نظریاتی طور پر اتنے جانبدار ہیں کہ وہ غیر جانبدارانہ بنیادوں پر تحقیقی صحافت کا راستہ اپنا ہی نہیں سکتے۔تہران میں ملکی وزارت ثقافت کے میڈیا ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ نے مزید کہا کہ مقامی ذرائع ابلاغ کا کسی نہ کسی کا ترجمان بنے رہنے کا یہی رویہ اس امر کا سبب بھی ہے کہ زیادہ تر ایرانی باشندے خبروں تک رسائی کے لیے غیر ملکی خبر رساں اداروں یا پھر سوشل میڈیا کا سہارا لینے پر مجبور ہیں۔سایہ پرور کے بقول اگرچہ ایرانی حکومت ٹوئٹر اور ٹیلیگرام جیسے سوشل میڈیا پر پابندیاں بھی لگا چکی ہے، تاہم اس کے باوجود ایرانی شہریوں کی غیر ملکی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کی طرف رغبت کم نہیں ہوئی۔اس کی ایک مثال دیتے ہوئے سایہ پرور نے بتایا کہ ٹیلیگرام پر پابندی کے باوجود قریب 40 سے لے کر 45 ملین تک ایرانی صارفین ابھی تک یہ آن لائن میسج سروس استعمال کرتے ہیں۔حامد رضا سایہ پرور نے بتایاکہ سوشل میڈیا پر پابندیاں لگانے یا انہیں نظر انداز کرنے کا دور یقینی طور پر گزر چکا ہے۔ انہوں نے یہ بات اس پس منظر میں کہی کہ ایران میں ٹیلیگرام، انسٹاگرام، ٹوئٹر اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا کئی برسوں سے ملک کی مذہبی اور حکومتی قیادت کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔