اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پچھلے کچھ عرصے کے دوران سعودی حکومت اپنے شہریوں کو زیادہ سے زیادہ روزگار فراہم کرنے کے لیے پاکستانیوں سمیت لاکھوں غیرملکیوں کو بیروزگار کرکے ملک سے نکال چکی ہے لیکن جو اب بھی سعودی عرب میں مقیم ہیں ان پر طرح طرح کے ٹیکس لاگو کر چکی ہے لیکن ان اقدامات کے نتیجے میں اب وہ ایک ایسی مشکل میں پھنس گئی ہے جس کا اس نے سوچا بھی نہ تھا۔ عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق
تارکین وطن پر بھاری ٹیکس عائد کرنے اور انہیں ملک سے نکالے جانے کی وجہ سے سعودی عرب میں ماہر لیبر کا قحط پڑنا شروع ہو گیا ،جدہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے ان اقدامات کی وجہ سے کاروبار تباہ ہو رہے ہیں۔ حکومت نے غیرملکیوں کے زیرکفالت بچوں پر بھی بھاری ٹیکس عائد کر دیا ہے جس کی وجہ سے تارکین وطن اپنے بچوں کو آبائی ممالک بھیجنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور بعض خود بھی واپس جا رہے ہیں۔ اس سے مارکیٹ میں کم تنخواہ پر کام کرنے والی لیبر کم ہوتی جا رہی ہے۔ چیمبر آف کامرس نےمطالبہ کیا کہ جن فرمز اور کمپنیوں میں تارکین وطن اور سعودی شہری برابر تعداد میں کام کر رہے ہیں ان میں کام کرنے والے تارکین وطن پر عائد ٹیکس ختم کیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو کچھ ہی عرصے میں 25سے 30فیصد پرائیویٹ کاروبار ٹھپ ہو جائیں گے۔ کونسل آف سعودی چیمبرز نے بھی اپنی تجاویز دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اول تارکین وطن پر عائد ٹیکس کو 2025ءتک مؤخر کیا جائے اور پھر چھوٹے اور درمیانے کاروباروں میں کام کرنے والے غیرملکیوں کو اس ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔واضح رہے کہ سعودی حکومت کی نئی پالیسیوں کی وجہ سے بہت سے پاکستانیوں سمیت غیر ملکیوں نے اپنے اپنے وطن کا رخ کرلیا ہے۔