انقرہ (آئی این پی)ترکی نے ہالینڈ کی جانب سے اس کے وزرا کو ریفرینڈم کیلئے مہم چلانے سے روکنے کے بعد کئی جوابی اقدامات کا اعلان کردیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ترک نائب وزیر اعظم نعمان کرتلمش نے کہا ہے کہ ہالینڈ کے سفیر کو انقرہ واپس آنے سے روکا جائے گا اور اعلی سطح کے سیاسی مذاکرات منسوخ کیے جائیں گے۔ نعمان کرتلمش کا کہنا تھا کہ ہم بالکل وہی کر رہے ہیں جو انھوں نے ہمارے ساتھ کیا۔ ہم ہالینڈ کے
سفیروں یا ایلچیوں کو لانے والے طیاروں کو ترکی میں اترنے یا ہماری فضائی حدود استعمال کرنے نہیں دیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کے بحران پیدا کرنے والے ہی اس کو ٹھیک کرنے کے ذمہ دار ہیں۔خیال رہے کہ ترکی کی جانب سے جرمنی، آسٹریا، سوئٹرزلینڈ اور ہالینڈ میں ریلیاں نکالنے کی کوشش کو روکا گیا ہے۔اس حوالے سے ترکی نے ہالینڈ کے سفارتخانے میں باقاعدہ طور پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے ان ممالک پر ‘نازی’ ہونے کا الزام لگایا تھا جس کے باعث سفارت کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔ دو نیٹو اتحادی ترکی اور ہالینڈ اس وقت غیر معمولی سفارتی بحران میں ہیں۔دریں اثنا جرمن چانسلر انجیلا میرکل نے ہالینڈ کو مکمل حمایت اور ساتھ دینے کا کہا ہے۔اس سے قبل ہالینڈ کی وزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری کی گئی ہدایات میں ترکی میں موجود ہالینڈ کے شہریوں کو محتاط رہنے کو کہا گیا تھا۔دوسری جانب ہالینڈ کے وزیر اعظم مارک روٹا نے ترک صدر کے بیان کو ‘ناقابل قبول’ قرار دیا جبکہ جرمنی کے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ ترکی ‘اپنے حواس بحال کر لے گا۔’ہالینڈ کے نائب وزیرِاعظم لوڈویجک آشر نے ترک صدر کے بیان کے جواب میں کہا ہے کہ ایک ایسی حکومت جو انسانی حقوق کے حوالے سے پیچھے جارہی ہے، اس کی جانب سے ہمیں نازی کہا جانا قابلِ نفرت ہے۔دوسری جانب ڈنمارک کے رہنما نے صدر اردوغان سے اپنی
طے شدہ ملاقات ملتوی کردی ہے۔ڈینش وزیر اعظم لارس لوکے راسموسین نے کہا انھیں اس بات پر تشویش ہے کہ ترکی میں ‘جمہوری اقدار شدید دبا میں ہیں۔’خیال رہے کہ ترکی میں 16 اپریل کو صدر کے اختیارات میں اضافے کے لیے جو ریفرینڈم منعقد کیا جا رہا ہے اس کے تحت ترکی کو پارلیمانی طرز حکومت کے بجائے امریکہ کی طرح صدارتی طرز حکومت میں تبدیل کرنے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔یورپی ممالک میں آباد ترکوں کی ووٹنگ میں شرکت کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ترک حکومت مختلف یورپی ممالک میں ریلیاں منعقد کر رہی ہے تاکہ صدر کے اختیارات میں اضافے کے حق میں ووٹ حاصل کیے جا سکیں۔