سعودی عرب،خلیفہ اول کے حبشہ کے سفر میں آ نے والے مقام “البِرک” کے بارے میں حیرت انگیزانکشافات

13  مارچ‬‮  2017

ریاض(آئی این پی )سعودی عرب اور برطانیہ کی ایک تحقیقی ٹیم نے مملکت کے صوبے عسیر کے ضلع “البِرک” میں آثاریاتی نوادرات دریافت کرلیے ، یہ پیش رفت کچھ عرصہ قبل مذکورہ علاقے میں ہونے والی کھدائی کے دوران ہوئی۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق کنگ سعود یونی ورسٹی میں تاریخ اور آثارقدیمہ کے پروفیسر ڈاکٹر سعید السعید کے مطابق کھدائی کے دوران پتھروں پر کندہ 14 نقوش بھی سامنے آئے ہیں۔عسیر

کے ساحل میں سعودی برطانوی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر ضیف اللہ العتیبی نے واضح کیا کہ ٹیم نے جزیرہ فرسان اور مملکت کے جنوب مغربی ساحلوں کا سروے کیا اور رواں برس تحقیقی کام کا دائرہ کار عسیر صوبے کے ضلع البرک میں تھا۔البرک میں پائے جانے والے کئی سنگِ میل اور تاریخی نقوش ہزاروں سالوں سے جزیرہ نما عرب کے بیچ اس مقام کی تاریخی حیثیت اور اقتصادی اہمیت کو باور کراتے ہیں۔ ان میں نمایاں ترین مقام “جبل العش” ہے جس کو مقامی لہجے میں “جبلِ ام عش” بولا جاتا ہے۔ یہاں موجود تاریخی نقوش قدیم “المسند” خط میں تحریر ہیں۔ڈاکٹر سعید السعید کے مطابق انہوں نے اپنے تحقیقی مطالعے میں البرک کے پہاڑی علاقے میں پتھروں پر 14 نقوش کی دریافت کا ذکر کیا ہے۔”البرک” کی تاریخ میں تخصص کے حامل محقق عبدالرحمن آل عبدہ کے مطابق ” البرک کی باڑھ اس کے وسط میں واقع ہے۔ یہ 629 ہجری کے اوائل میں بنائی گئی پھر 704 ہجری میں اس کی تجدیدِ نو ہوئی۔ بعد ازاں کئی دہائیوں تک اس کی تجدید اور اس میں اضافوں کا سلسلہ جاری رہا”۔البرک کے تاریخی محلات اور آثاریاتی قلعوں کو یہاں کے نمایاں ترین تاریخی مقامات میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان میں وادی ذہبان کے مقابل قلعہ بھی شامل ہے جو جنوب میں 15 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ مشرقی جانب سے باقی رہ جانے والے اس کے آثار اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔”البِرک” میں تیسری اور چوتھی

صدی عیسوی سے تعلق رکھنے والے تہذیبی ورثے کے آثار اب بھی برقرار ہیں۔ بہت سے مرخین اور جغرافیائی ماہرین کا کہنا ہے کہ “البِرک” ہی درحقیقت “بِرک الغماد” کا مقام ہے جس کا ذکر مصادر اور عرب ورثے کی کتابوں میں موجود ہے۔خلیفہ اول حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مسجد یہاں کے اہم ترین تاریخی یاگاروں میں سے ہے۔ اس کا رقبہ 90 مربع میٹر ہے اور یہ شاہراہِ الدولی سے 300 میٹر کی دوری پر ہے۔

عبدالرحمن آل عبدہ کے مطابق یہ مسجد خلیفہ اول نے اس وقت تعمیر کی جب وہ حبشہ کے لیے ہجرت کے سفر میں البِرک سے گزرے تھے۔اس مسجد کے نزدیک “المجدور” کا تاریخی کنواں بھی ہے جس کی گہرائی نو میٹر اور چوڑائی دو میٹر ہے۔ بحرِ احمر کے قریب ہونے کے باوجود یہ کنواں البِرک میں پینے کے صاف پانی کا ایک اہم ذریعہ ہے اور مرکزی راستوں میں باغوں اور درختوں پر پانی کے چھڑکا کے لیے بھی اسی کا پانی استعمال کیا جاتا ہے۔

موضوعات:



کالم



تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟


نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…