جمعہ‬‮ ، 19 ستمبر‬‮ 2025 

سعودی عرب،خلیفہ اول کے حبشہ کے سفر میں آ نے والے مقام “البِرک” کے بارے میں حیرت انگیزانکشافات

datetime 13  مارچ‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ریاض(آئی این پی )سعودی عرب اور برطانیہ کی ایک تحقیقی ٹیم نے مملکت کے صوبے عسیر کے ضلع “البِرک” میں آثاریاتی نوادرات دریافت کرلیے ، یہ پیش رفت کچھ عرصہ قبل مذکورہ علاقے میں ہونے والی کھدائی کے دوران ہوئی۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق کنگ سعود یونی ورسٹی میں تاریخ اور آثارقدیمہ کے پروفیسر ڈاکٹر سعید السعید کے مطابق کھدائی کے دوران پتھروں پر کندہ 14 نقوش بھی سامنے آئے ہیں۔عسیر

کے ساحل میں سعودی برطانوی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر ضیف اللہ العتیبی نے واضح کیا کہ ٹیم نے جزیرہ فرسان اور مملکت کے جنوب مغربی ساحلوں کا سروے کیا اور رواں برس تحقیقی کام کا دائرہ کار عسیر صوبے کے ضلع البرک میں تھا۔البرک میں پائے جانے والے کئی سنگِ میل اور تاریخی نقوش ہزاروں سالوں سے جزیرہ نما عرب کے بیچ اس مقام کی تاریخی حیثیت اور اقتصادی اہمیت کو باور کراتے ہیں۔ ان میں نمایاں ترین مقام “جبل العش” ہے جس کو مقامی لہجے میں “جبلِ ام عش” بولا جاتا ہے۔ یہاں موجود تاریخی نقوش قدیم “المسند” خط میں تحریر ہیں۔ڈاکٹر سعید السعید کے مطابق انہوں نے اپنے تحقیقی مطالعے میں البرک کے پہاڑی علاقے میں پتھروں پر 14 نقوش کی دریافت کا ذکر کیا ہے۔”البرک” کی تاریخ میں تخصص کے حامل محقق عبدالرحمن آل عبدہ کے مطابق ” البرک کی باڑھ اس کے وسط میں واقع ہے۔ یہ 629 ہجری کے اوائل میں بنائی گئی پھر 704 ہجری میں اس کی تجدیدِ نو ہوئی۔ بعد ازاں کئی دہائیوں تک اس کی تجدید اور اس میں اضافوں کا سلسلہ جاری رہا”۔البرک کے تاریخی محلات اور آثاریاتی قلعوں کو یہاں کے نمایاں ترین تاریخی مقامات میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان میں وادی ذہبان کے مقابل قلعہ بھی شامل ہے جو جنوب میں 15 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ مشرقی جانب سے باقی رہ جانے والے اس کے آثار اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔”البِرک” میں تیسری اور چوتھی

صدی عیسوی سے تعلق رکھنے والے تہذیبی ورثے کے آثار اب بھی برقرار ہیں۔ بہت سے مرخین اور جغرافیائی ماہرین کا کہنا ہے کہ “البِرک” ہی درحقیقت “بِرک الغماد” کا مقام ہے جس کا ذکر مصادر اور عرب ورثے کی کتابوں میں موجود ہے۔خلیفہ اول حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مسجد یہاں کے اہم ترین تاریخی یاگاروں میں سے ہے۔ اس کا رقبہ 90 مربع میٹر ہے اور یہ شاہراہِ الدولی سے 300 میٹر کی دوری پر ہے۔

عبدالرحمن آل عبدہ کے مطابق یہ مسجد خلیفہ اول نے اس وقت تعمیر کی جب وہ حبشہ کے لیے ہجرت کے سفر میں البِرک سے گزرے تھے۔اس مسجد کے نزدیک “المجدور” کا تاریخی کنواں بھی ہے جس کی گہرائی نو میٹر اور چوڑائی دو میٹر ہے۔ بحرِ احمر کے قریب ہونے کے باوجود یہ کنواں البِرک میں پینے کے صاف پانی کا ایک اہم ذریعہ ہے اور مرکزی راستوں میں باغوں اور درختوں پر پانی کے چھڑکا کے لیے بھی اسی کا پانی استعمال کیا جاتا ہے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



انسان بیج ہوتے ہیں


بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…