اتوار‬‮ ، 30 جون‬‮ 2024 

دنیا بھر کے فراڈی اورٹیکس چور اپنا پیسہ کہاں چھپاتے ہیں؟بین الاقوامی ادارے نے فہرست جاری کردی

datetime 13  دسمبر‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لندن(این این آئی)برطانوی فلاحی ادارے آکسفیم نے برمودا، کے مَین آئی لینڈز، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ، سنگاپور، آئر لینڈ اور لکسمبرگ کو ’بد ترین ٹیکس ہیونز‘ قرار دے دیا،غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق برطانوی فلاحی ادارے آکسفیم نے بتایا کہ دنیا میں ٹیکس چوروں کی جنتیں کہاں کہاں ہیں۔ آکسفیم کے مطابق بڑے کاروباری ادارے فراڈ کرتے ہوئے شہریوں کو سالانہ اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا رہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ٹیکس چوروں کی جنت‘ کہلانے والے علاقے کارپوریٹ ٹیکس بچانے میں مدد کے معاملے میں قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں اور یوں مختلف ’ممالک کو اْن اربوں ڈالر سے محروم کر رہے ہیں،

جنہیں غربت اور عدم مساوات کے خاتمے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔اس فہرست میں یوں تو اور بھی بہت سے نام شامل ہیں تاہم برمودا، کے مَین آئی لینڈز، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ، سنگاپور، آئر لینڈ اور لکسمبرگ کو ’بد ترین ٹیکس ہیونز‘ قرار دیا گیا ہے۔اس فہرست کی تیاری کے سلسلے میں جن سوالات کو بنیادی اہمیت دی گئی، وہ یہ تھے کہ مختلف ممالک تباہ کن ٹیکس پالیسیاں متعارف کروانے مثلاً کارپوریٹ ٹیکس کی شرح صفر پر رکھنے، غیر منصفانہ اور غیر پیداواری ترغیبات دینے اور ٹیکس چوری کے انسداد کے لیے سرگرم بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعاون کے فقدان کے معاملے میں آخر کس حد تک جا سکتے ہیں۔

آکسفیم نے یہ بھی بتایا کہ اْس کی تیار کردہ فہرست میں چوٹی کی پوزیشنوں پر موجود ممالک بڑے بڑے اسکینڈلز میں ملوث ہیں۔ اس سلسلے میں آکسفیم نے آئر لینڈ کی مثال دی ہے، جس کی کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے شعبے کی ممتاز امریکی کمپنی ایپل کے ساتھ ٹیکس کے معاملے پر ڈِیل دنیا بھر میں شہ سْرخیوں کا موضوع بنی تھی۔ اس ڈِیل کے تحت اس ادارے کو انتہائی کم شرح یعنی صرف 0.005 فیصد کے حساب سے کارپوریٹ ٹیکس دینے کے لیے کہا گیا تھا۔آئر لینڈ کے ساتھ ہونے والی ایک ڈِیل کے تحت امریکی ادارے ایپل کو انتہائی کم شرح یعنی صرف 0.005 فیصد کے حساب سے کارپوریٹ ٹیکس دینے کے لیے کہا گیا تھاآکسفیم کی ٹیکس پالیسیوں سے متعلق خاتون مشیر ایسمی بیرک ہاؤٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’کارپوریٹ ٹیکس کی بچت میں مدد دینے والے خطّے ایک ایسے خطرناک حد تک غیر مساوی اقتصادی نظام کے فروغ میں معاون ثابت ہو رہے ہیں، جس کے باعث کروڑوں انسانوں کے لیے ایک بہتر زندگی کے امکانات کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔اس برطانوی امدادی ادارے نے کہا کہ ملٹی نیشنل یا کثیرالقومی کارپوریشنز کی جانب سے ٹیکسوں کی چوری کے باعث غریب قومیں اپنے اْن وسائل سے محروم ہو رہی ہیں، جو ’اسکول نہ جانے والے 124 ملین بچوں کو تعلیم و تربیت فراہم کرنے اور حفظان صحت کی ایسی سہولتوں کو ممکن بنانے کے لیے کافی ہیں، جن کے ہوتے ہوئے ہر سال کم از کم چھ ملین بچوں کو موت کے منہ میں جانے سے روکا جا سکتا ہے‘۔

موضوعات:



کالم



کام یاب اور کم کام یاب


’’انسان ناکام ہونے پر شرمندہ نہیں ہوتے ٹرائی…

سیاست کی سنگ دلی ‘تاریخ کی بے رحمی

میجر طارق رحیم ذوالفقار علی بھٹو کے اے ڈی سی تھے‘…

اگر کویت مجبور ہے

کویت عرب دنیا کا چھوٹا سا ملک ہے‘ رقبہ صرف 17 ہزار…

توجہ کا معجزہ

ڈاکٹر صاحب نے ہنس کر جواب دیا ’’میرے پاس کوئی…

صدقہ‘ عاجزی اور رحم

عطاء اللہ شاہ بخاریؒ برصغیر پاک و ہند کے نامور…

شرطوں کی نذر ہوتے بچے

شاہ محمد کی عمر صرف گیارہ سال تھی‘ وہ کراچی کے…

یونیورسٹیوں کی کیا ضرروت ہے؟

پورڈو (Purdue) امریکی ریاست انڈیانا کا چھوٹا سا قصبہ…

کھوپڑیوں کے مینار

1750ء تک فرانس میں صنعت کاروں‘ تاجروں اور بیوپاریوں…

سنگ دِل محبوب

بابر اعوان ملک کے نام ور وکیل‘ سیاست دان اور…

ہم بھی

پہلے دن بجلی بند ہو گئی‘ نیشنل گرڈ ٹرپ کر گیا…

صرف ایک زبان سے

میرے پاس چند دن قبل جرمنی سے ایک صاحب تشریف لائے‘…