لندن(این این آئی) افغان حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق افغان حکومت کی جانب سے باضابطہ طور پر مذاکرات کی اس ناکامی پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔حزبِ اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار ہیں اور یہ جماعت روس کے خلاف جنگ میں پیش پیش تھی۔افغان حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان گذشتہ چار ماہ سے مذاکرات جاری تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ افغان حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان صرف ایک وجہ نہیں بلکہ کئی وجوہات تھیں جو ان مذاکرات کی ناکامی کا باعث بنیں۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ سب سے بڑی وجہ افغانستان میں موجود امریکی اور بین الاقوامی فوجوں کی انخلا کا مسئلہ تھا اس سے پہلے پیر کو حزب اسلامی کے ایک ویب سائٹ ’شہادت‘ نے ’امن مذاکرات کے دشمن کامیاب ہو گئے کے عنوان سے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ افغان حکومت نے امن مذاکرات میں بار بار نئی شرائط رکھیں لیکن اْنھوں نے افغان عوام کی خوشحالی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ شرائط بھی مان لیں۔ لیکن اس کے باوجود کئی ماہ سے جاری یہ مذاکرات ناکام ہو گئے تاہم ایک دن کے بعد اس ویب سائٹ نے یہ خبر ہٹا دی۔ رپورٹ کے مطابق اس سے پہلے حزب اسلامی کی جانب سے جو شرائط رکھی گئی تھیں اْن میں تمام قیدیوں کی رہائی، افغان مہاجرین کی افغانستان میں باعزت واپسی کو عملی شکل دینا اور امریکی اور دیگر بین الاقوامی بلیک لسٹوں میں سے حزب اسلامی کے بعض رہنماؤں کے نام نکالنا شامل تھا۔ تفصیلی رپورٹ میں حزب اسلامی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس کے باوجود کہ بعض میڈیا میں یہ خبریں آ رہی تھیں کہ حزب اسلامی نے افغان حکومت کے سامنے نئے سرے سے شرائط رکھی ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ نئی شرائط حزب کی جانب سے نہیں بلکہ خود افغان حکومت کی جانب سے رکھی گئی تھیں۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے امن مذاکرات میں موجود ایک رکن نے کہا کہ افغان حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کو افغان عوام کی بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ بقول اْن کے افغان عوام میں ایک عرصے بعد ان مذاکرات کی وجہ سے خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔