انقرہ (این این آئی)ترک پارلیمان نے کرد عسکریت پسندوں کے خلاف لڑائی میں مصروف ملکی فوجی دستوں کے لیے ان کے خلاف کسی بھی ممکنہ قانونی کارروائی سے تحفظ کی منظوری دے دی ہے۔ تاحال جاری اس لڑائی میں گزشتہ برس ہزاروں افراد مارے گئے تھے۔ترک میڈیا کے مطابق ترک پارلیمان نے ملکی فوج کے کرد عسکریت پسندوں کے خلاف مسلح لڑائی میں مصروف ارکان کو ان کے خلاف اس آپریشن کے حوالے سے کسی بھی قسم کی عدالتی کارروائی سے تحفظ دینے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ ’دہشت گردی کے خلاف ترکی کی جنگ‘ متاثر نہ ہو۔فوجی دستوں کے لیے مامونیت سے متعلق اس نئے مسودہ قانون کے تحت، جسے منظور کیا گیا، کرد علیحدگی پسندوں کی ممنوعہ جماعت کردستان ورکرز پارٹیکی مسلح بغاوت کو کچلنے کے لیے ترک فوجی دستوں کو وسیع تر اضافی اختیارات بھی دے دیے گئے ہیں۔ ترک حکومت اور کردستان ورکرز پارٹی کے مابین طے پانے والا فائر بندی معاہدہ دو سال تک مؤثر رہنے کے بعد گزشتہ برس ناکام ہو گیا تھا۔نئی قانون سازی کے بعد اس بات کی ممکنہ چھان بین اور بھی مشکل ہو جائے گی کہ آیا ترک فوجی دستے اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے۔ یہ پہلو اس لیے بھی اہم ہے کہ ماضی میں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی بین الاقوامی تنظیمیں اس بارے میں گہری تشویش کا اظہار کر چکے ہیں کہ گزشتہ برس ترک فوجی دستے ملک کے کئی بہت گنجان آباد علاقوں میں کرد عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کرتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے تھے۔