قندوز(نیوز ڈیسک)قندوز شہر پر قبضہ طالبان کے لیے تشہیری اہمیت کا حامل ہے۔ شہر کے مختلف چوکوں اور مرکزی عمارتوں پر طالبان جنگجوو¿ں کی جانب سے سفید جھنڈے لہراتے ہوئے تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔افغانستان کے سب سے اہم اور سٹریٹیجک شہر پر قبضے سے نہ صرف طالبان کے نئے سربراہ ملا اختر منصور کو مضبوط کرے گا بلکہ طالبان کی ہمت بھی بڑھائے گا۔طالبان کے لیے اب سب سے بڑا چیلنج شہر کو اپنے قبضے میں رکھنا ہے۔ وہ شہر کو کیسے چلاتے ہیں اور کیسا برتاو¿ رکھتے ہیں، چاہے کچھ دنوں کے لیے ہی سہی پر اس سے ظاہر ہو جائے گا کہ سنہ 2001 ایک میں ان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد اس گروہ میں کتنی تبدیلی آئی ہے۔اسی دوران طالبان اپنے کنٹرول کو دوسرے صوبوں تک بڑھانے کی کوشش بھی کریں گے جہاں پہلے ہی بہت سے حصوں پر کنٹرول رکھتے ہیں۔اطلاعات کے مطابق علاقے میں شدید لڑائی جاری ہے اور صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے چند سرکاری عمارتوں پر سے طالبان کا قبضہ چھڑا لیا ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ اب تک 80 سے زائد شدت پسند ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ کسی بھی آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔نیٹو کے ترجمان کے مطابق امریکی طیارے افغان سکیورٹی فورسز کو مدد فراہم کر رہے ہیں اور قندوز شہر کے گرد و نواح میں طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ دوسری جانب پینٹاگون کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکہ کو پورا یقین ہے کہ افغان فوج شہر پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔افغان وزارت صحت نے بتایا ہے کہ قندوز کے ہسپتالوں میں 16 لاشیں لائی گئی ہیں جبکہ 200 افراد زخمی ہوئے ہیں۔امدادی ادارے میڈیسن سان فرنٹیئر کا کہنا ہے کہ قندوز شہر میں ان کے ہسپتال ایسے افراد سے بھرے ہوئے ہیں جنھیں گولیاں لگنے سے زخم آئے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق منگل کو طالبان کے مزید اہلکار شہر میں داخل ہو گئے جس کے بعد حالات مزید خطرناک ہو گئے اورمقامی لوگوں کے لیے وہاں سے نکلنا مشکل ہوگیا۔طالبان کے نئے سربراہ ملا اختر منصور نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’حکومت کو اپنی شکست تسلیم کر لینی چاہیے، اور قندوز کے شہریوں کو اپنی جان اور مال کے حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، وہ معمول کے مطابق ہی رہیں۔‘ تاہم عینی شاہد کا کہنا ہے کہ ’بعض مقامی شہریوں نے طالبان کا خرمقدم کیا ہے