لاڑکانہ(این این آئی)جان لیوا موذی مرض ایڈز کے پھیلائو کو روکنے، متاثرہ مریضوں کی بحالی اور شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے حکومت سندھ کی سنجیدہ کوشش کا بھانڈا پھوٹ گیا۔صوبائی حکومت کی جانب سے ایڈز سے بچائو کے لیے کی جانے والی کوششیں اس وقت منظر عام پر آئیں جب اعلی سطحی اجلاس میں وفاقی مشیر برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کے سامنے سندھ ایڈز
کنٹرول پروگرام کے سربراہ نے فنڈز نہ دیئے جانے کا رونا رویا توعالمی ادارہ صحت کی کنٹری ہیڈ نے صوبائی حکومت پر عالمی قوانین پر عمل درآمد نہ کرانے کے الزامات عائد کرد یئے۔وزیراعظم کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کی زیرصدارت رتو ڈیرو لاڑکانہ میں ایڈز کے پھیلائو سے پیدا شدہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے منعقدہ اعلی سطحی اجلاس کے شرکا اس وقت ہکا بکا رہ گئے جب انہیں سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے انچارج ڈاکٹر سکندر میمن نے بتایا کہ رتو ڈیرو اور گرد و نواح میں اسکریننگ کرنے کے لیے چھ کروڑ روپے درکار ہیں جس میں سے تین کروڑ 40 لاکھ روپے دینے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی مگر وہ بھی نہیں ملے ہیں۔ذمہ دار ذرائع کے مطابق ڈاکٹر سکندر میمن نے شرکائے اجلاس کو بتایا کہ حکومت سندھ کی جانب سے یقین دہانی کرانے کے بعد اس مد میں چیک بھی جاری کیا گیا مگر تاحال پیسے نہیں ملے ہیں۔ذرائع کے مطابق سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام نے وفاقی مشیر برائے صحت سے کہا کہ نیشنل ایڈز پروگرام سے دو لاکھ کٹس دلائی جائیں۔انچارج سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام ڈاکٹر سکندر میمن نے دوران اجلاس شرکا پر واضح کیا کہ سیکنڈ اور تھرڈ ایچ آئی وی ٹیسٹ کے لیے مزید 20/20 ہزار کٹس درکار ہوں گی۔ذمہ دار ذرائع کے مطابق عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او)کی کنٹری ہیڈ ڈاکٹر پلیتا نے شرکائے اجلاس کو یہ بتایا کر ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ حکومت سندھ جنیوا کنونشن کے مطابق عمل درآمد میں ناکام رہی ہے۔ذرائع کے مطابق ڈاکٹر پلیتا نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ حکومتی ادارے سرنج کے بار بار استعمال کی روک تھام میں بھی ناکام ثابت ہوئے ہیں۔