پشاور۔۔۔۔ پشاور کے رہائشیوں کی زندگی حالیہ برسوں میں لاتعداد بم دھماکوں، فائرنگ اور اغوا وغیرہ جیسے مسائل میں گزر رہی ہے مگر اب انہیں اپنے گھروں میں ایک اور بڑے خطرے کا سامنا ہے اور وہ ہے بڑے بڑے چوہے۔
طالبان کے خلاف جنگ میں صف اول کی حیثیت رکھنے والے شہر کے باسیوں کا کہنا ہے کہ یہ اتنے بڑے چوہے ہیں کہ مرغیاں ہڑپ کرجاتے ہیں، درجنوں بڑے افراد کو کاٹ چکے ہیں جس سے امراض پھیل رہے ہیں بلکہ ایک بچے کو بھی ہلاک کرچکے ہیں مگر اب اس کا حل نصیر احمد کے ہاتھوں میں چھپا ہے۔
کدال، ہاتھ ریڑھی اور پلاسٹک کے دستانوں جیسے ‘ ہتھیاروں’ سے لیس اور اپنی تین بیٹیوں کے ہمراہ چالیس سالہ نصیر احمد پشاور میں چوہوں کے خلاف ایک جنگ عظیم لڑ رہے ہیں اور ان کے بقول وہ ڈیڑھ سال کے دوران ایک لاکھ سے زائد ‘ دشمنوں’ کو ہلاک کرچکا ہے۔
پشاور کے گنجان آباد علاقے زریاب میں اپنے مشن کے دوران اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے نصیر احمد نے بتایا ” یہ میرا مشن ہے اور میں نے اس کا بیڑہ اس وقت اٹھایا جب میں نے اپنے دوست کو چوہے کے کاٹنے کے باعث اپنی بیوی کو ہسپتال لے جاتے دیکھا”۔
وہ مزید بتاتے ہیں ” اس خاتون کے علاج پر پانچ ہزار روپے کا خرچہ ہوا اور اور اسے انسداد ریبیز انجکشن بھی لگوانا پڑے”۔
یہ چوہے نو سے بارہ انچ لمبے ہیں اور نصیر کے مطابق ” یہ ہر جگہ ہیں، گلیوں، بازاروں اور دکانوں ہر جگہ”۔
چوہوں کے اس شکاری کا کہنا تھا کہ یہ راتوں کو حملہ کرتے ہیں اور سورج طلوع ہونے سے پہلے فرار ہوجاتے ہیں جس سے گھروں اور دکانوں کو نقصان پہنچتا ہے، خوراک آلودہ ہوتی ہے اور یہ بچوں و خواتین کو کاٹتے بھی ہیں۔
ماضی میں شہر میں چوہوں کی تعداد محدود تھی مگر حالیہ برسوں میں ارگرد کے علاقوں میں آنے والے سیلابوں نے ان کی تعداد بڑھا دی ہے۔
راتوں کا شکاری
جیسے جیسے رات گہری ہونے لگتی ہے نصیر احمد اپنا شکار شروع کردیتے ہیں اور گلی گلی، گھر گھر گھوم کر چوہوں کو تلاش کرتے ہیں۔
وہ اپنے ساتھ روٹی کے ٹکڑے رکھتے ہیں جن پر چینی اور کیمیکل کو چھڑکا جاتا ہے۔
نصیر احمد کے مطابق ” یہ چوہے مقامی زہر کے خلاف اپنے اندر مدافعت پیدا کرچکے ہیں اس لیے میں ان کو مارنے کے لیے اپنا فارمولا استعمال کرتا ہوں”۔
نصیر احمد اور ان کی بیٹیوں کی اس مہم سے کچھ دور ایک مکان میں گل زادہ نامی شخص اپنے گھر کے فرش پر چوہوں کے بنائے گئے سوراخوں کو بند کررہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ان چوہوں نے اس نے نومولود بھانجے کو ہلا ک کردیا تھا۔
گل زادہ کے مطابق ” انہوں نے گزشتہ برس میرے ڈیڑھ سالہ بھانجے کو کاٹ لیا تھا جسے ہم ہسپتال لے کر گئے مگر وہ جانبر نہیں ہوسکا”۔
گل زادہ کے دادا فقیر گل نے بتایا کہ یہاں کے ہر رہائشی نے اپنے گھروں میں چوہوں کو مارنے والے پھندے لگا رکھے ہیں مگر انہوں نے تسلیم کیا کہ نصیر احمد ہی واحد موثر مزاحمتی قوت ثابت ہورہے ہیں۔
ایک درزی امان اللہ خان نے اے ایف پی کو بتایا ” وہ ایک فوج کی طرح حملہ کرتے ہیں اور رات کو دس بجے دھاوا بولتے ہیں اور میرے کپڑوں کو چبا ڈالتے ہیں”۔
نصیر احمد نے زہر والی روٹی دکانوں کے سامنے، کونوں اور ہر اس جگہ رکھ دی جہاں چوہے دھاوا بول سکتے ہیں۔
اگلی صبح وہاں پہنچنے پر نظر آیا کہ نصیر احمد کا فارمولا کام کررہا ہے اور مقامی افراد نے مردہ چوہوں کو بیلچوں سے اٹھا کر گلی کے کونوں میں پھینک دیا جس کے بعد نصیر نے سو کے قریب ان ‘ لاشوں’ کو اٹھا کر ہاتھ گاڑی میں ڈالا اور ایک میدان میں دفن کردیا۔
اگلی صبح وہاں پہنچنے پر نظر آیا کہ نصیر احمد کا فارمولا کام کررہا ہے اور مقامی افراد نے مردہ چوہوں کو بیلچوں سے اٹھا کر گلی کے کونوں میں پھینک دیا جس کے بعد نصیر نے سو کے قریب ان ‘ لاشوں’ کو اٹھا کر ہاتھ گاڑی میں ڈالا اور ایک میدان میں دفن کردیا۔
اگرچہ نصیر اپنے کام کی بدولت مقامی افراد میں مقبولیت حاصل کرچکا ہے مگر یہ کوششیں غیرسرکاری ہیں اور انتظامیہ اس جانب توجہ نہیں دے رہی مگر یہ باعزم شخص اپنا کام جاری رکھنا چاہتا ہے۔