اتوار‬‮ ، 14 ستمبر‬‮ 2025 

کینسر سے بچنے کیلئے اقدامات کرنا اچھی بات ہے مگراس سے پہلے یہ تحقیق بھی پڑھ لیں

datetime 2  جنوری‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

نیویارک: کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سائنسدان صرف تجربات اور عملی چیزوں کو ہی مانتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے اور امریکا میں کی جانے والی نئی تحقیق میں سائنسدانوں نے تسلیم کیا ہے کہ دو تہائی کینسرکی بیماری صرف بدقسمتی سے لگتی ہے تاہم کچھ مہلک کینسر طرز زندگی سے بھی انسانی جسم کا حصہ بن جاتے ہیں۔

امریکی جرنل سائنس میں شائع ہونے والی تحقیق میں سائنسدانوں نے دعوی کیا ہے کہ یوں تو لاکھوں سیل ہماری جسم میں گردش کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے چند ہی ایسے ہوتے ہیں جو کینسر کی بیماری کا باعث بن جاتے ہیں تاہم دماغی او پھیپھڑوں کے کینسر کی عمومی وجہ سگریٹ نوشی اور دیگر وجوہات ہو سکتی ہیں۔ تحقیق کرنے والی ٹیم کا کہنا ہے کہ تمام قسم کے کینسر کی بیماری اسی طرح بائی چانس لگ جاتی ہیں جس طرح  ڈائس کے پھینکنے سے مطلوبہ نمبر اچانک سامنے آجائے یا پھر طویل انتظار تک نہیں آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی انسان کا ڈی این اے کبھی بائی چانس ہی کینسر پھیلانے والے سیل کو حاصل کرلیتا ہے اور یہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ دوتہائی لوگ بد قسمتی سے ہی کینسر کا شکار ہوتے ہیں۔

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے کچھ کینسر سیل ہمارے ٹشوز سے ملاپ کر لیتے ہیں اس کا جواب دیا ہے جونز ہوپکن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن اینڈ بلوم برگ اسکول آف پبلک ہیلتھ کی کینسر پر تحقیق کرنے والی ٹیم نے جس کا کہنا ہے کہ ہمارے جسم میں موجود پرانے کمزور ہوتے ہوئے سیل کی جگہ قدرتی طور پر نئے سیل لیتے رہتے ہیں جو اسٹیم سیل کی تقسیم کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں تاہم اسٹیم سیل کی یہ تقسیم انتہائی خطرناک ہوتی ہے جس کا کوئی بھی سیل کس بھی وقت ڈی این اے میں کینسر سیل سے ملاپ کرلیتا ہے جبکہ سیل کی تبدیلی کے اس عمل کی رفتار پورے جسم میں مختلف ہوتی ہے پیٹ میں یہ رفتار تیز جبکہ دماغ میں سست ہوتی ہے، ٹیومر کے علاج کے ماہر اور اس تحقیق کے اسسٹنٹ پروفیسر کرسٹین ٹوماسیٹی کا کہنا ہے کہ اگر دو تہائی کینسر اسٹیم سیلز کی تقسیم کے وقت ڈی این اے کے اندر اتفاقی تبدیلی سے لاحق ہوتے ہیں تو طرزِ زندگی اور عادات کو تبدیل کرنے سے ایک خاص قسم کے کینسر سے بچنے میں تو بڑی مدد ملے گی لیکن دوسری قسم کے کینسر پر یہ چیزیں اتنی موثر ثابت نہیں ہوں گی۔

 سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایک تہائی کینسر ایسے ہیں جن سے طرز زندگی تبد یل کر کے بچا چا سکتا ہے، مثال کے طور پر تمباکو نوشی سے پرہیز، صحت مند وزن، اچھی غذا اور کثرتِ شراب نوشی سے پرہیز۔ ان کا کہنا تھا کہ طرزِ زندگی میں یہ تبدیلیاں لانا کینسر کے بچاؤ کی ضمانت نہیں لیکن ان سے کینسر کا خطرہ کم ضرور ہو جاتا ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



انجن ڈرائیور


رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…