اتوار‬‮ ، 14 ستمبر‬‮ 2025 

سائنسدانوں نے سرطان کی بڑی وجہ بری قسمت کیوں قرار دیا، حیرت انگیز انکشاف کلک کر کے پڑھیں

datetime 2  جنوری‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لندن۔۔۔۔ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سرطان کی بہت سی اقسام کا تعلق تمباکونوشی جیسے خطرے کے عوامل کی بجائے صرف بری قسمت سے ہوتا ہے۔ایک امریکی ٹیم نے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ جسم کے بعض خلیوں کو سرطان لاحق ہونے کا خطرہ دوسرے خلیوں کے مقابلے پر لاکھوں گنا زیادہ کیوں ہوتا ہے۔
یہ تحقیق ’سائنس‘ نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے، اور اس میں بتایا گیا ہے کہ دو تہائی سرطان کی وجہ طرزِ زندگی کی بجائے ڈی این اے میں اتفاقی تبدیلیوں ہیں۔دوسری طرف کینسر ریسرچ یوکے نامی تنظیم کا کہنا ہے کہ صحت مندانہ طرزِ زندگی اب بھی سرطان سے بچاؤ میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔امریکہ میں 6.9 فیصد لوگ کو زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں پھیپھڑوں کے سرطان اور 0.6 فیصد دماغی سرطان میں مبتلا ہو جاتے ہیں جب کہ 0.00072 فیصد کے نرخرے میں رسولی پیدا ہو جاتی ہے۔سگریٹ کے دھویں میں موجود زہریلے مواد سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پھیپھڑوں کا سرطان اتنا عام کیوں ہے۔لیکن نظامِ انہضام کو دماغ کے مقابلے پر کہیں زیادہ مضر ماحولیاتی کیمیائی مادوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اس کے باوجود چھوٹی آنت کے مقابلے پر دماغی سرطان کا خطرہ تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔بعض قسم کے سرطان ایسے ہیں جنھیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے روکا نہیں جا سکتا۔امریکہ کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی اور بلوم برگ سکول آف پبلک ہیلتھ کے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس کی وجہ یہ بات سمجھنے میں ہے کہ خلیے کس طرح سے تقسیم ہوتے ہیں۔جسم کے اندر پرانے خلیے مرتے رہتے ہیں اور سٹیم سیلز کی مدد سے بننے والے نئے خلیے لگاتار ان کی جگہ لیتے رہتے ہیں۔ لیکن ہر تقسیم کے دوران ڈی این اے میں خطرناک تبدیلی پیش آنے کا خطرہ ہوتا ہے، اور تقسیم شدہ خلیہ سرطان زدہ ہونے کے خطرے سے ایک قدم قریب ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی ہے کہ جسم کے اندر مختلف حصوں کے خلیوں کی تقسیم کی شرح مختلف ہوتی ہے۔سائنس دانوں نے جسم کے 31 حصوں میں مشاہدہ کیا کہ زندگی بھر میں سٹیم سیل کتنی بار تقسیم ہوتے ہیں۔انھوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ سرطان کی دو تہائی اقسام کی وجہ صرف ’بری قسمت‘ ہے، اور یہ کہ سٹیم سیل کے ڈی این اے میں اتفاقی طور پر مضر تبدیلی رونما ہو جاتی ہے جس سے بچا نہیں جا سکتا۔ان میں دماغ ، چھوٹی آنت اور لبلبے کے سرطان شامل ہیں۔تحقیق میں شامل سائنس دان کرسٹین ٹوماسیٹی نے کہا کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے اس قسم کے سرطانوں سے بچاؤ ممکن نہیں ہے۔انھوں نے کہا: ’اگر دو تہائی سرطان سٹیم سیلز کی تقسیم کے وقت ڈی این اے کے اندر اتفاقی تبدیلی سے لاحق ہوتے ہیں تو طرزِ زندگی اور عادات کو تبدیل کرنے سے ایک خاص قسم کے سرطانوں سے بچنے میں تو بڑی مدد ملے گی، لیکن دوسری قسم کے سرطانوں پر یہ چیزیں اتنی موثر ثابت نہیں ہوں گی۔’ہمیں اس طرح کی سرطانوں کی جلد تشخیص پر زیادہ وسائل صرف کرنے چاہییں جب ان کا علاج آسان ہوتا ہے۔‘پھیپھڑوں کے سرطان کی بڑی وجہ تمباکو نوشی ہے۔بقیہ ماندہ ایک تہائی سرطانوں کا تعلق طرزِ زندگی سے یا وراثت سے ہے۔ ان میں بعض بہت عام سرطان شامل ہیں:
جلد کا سرطان ’بیزل سیل کارسینوما،‘ جو بالائے بنفشی شعاعوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔پھیپھڑوں کا سرطان، جس کا تعلق تمباکو نوشی سے ہے،بڑی آنت کا سرطان، جو ناقص غذا اور وراثت کی وجہ سے ہوتا ہے
ایک اور تحقیق میں کینسر ریسرچ یوکے نے بتایا تھا کہ دس میں سے چار سرطانوں کا باعث ناقص طرزِ زندگی ہے۔
40 فیصد سرطانوں سے بچا جا سکتا ہے
تنظیم سے وابستہ ڈاکٹر ایما سمتھ نے بی بی سی کو بتایا: ’ہمارا تخمینہ ہے کہ چار میں سے دس سرطانوں کو طرزِ زندگی میں تبدیلی سے روکا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر تمباکو نوشی سے پرہیز، صحت مند وزن، اچھی غذا اور کثرتِ شراب نوشی سے پرہیز۔‘
انھوں نے کہا کہ ’طرزِ زندگی میں یہ تبدیلیاں لانا سرطان کے بچاؤ کی ضمانت نہیں ہے لیکن ان سے سرطان کا خطرہ کم ضرور ہو جاتا ہے۔’لوگوں کو یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ سرطان کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کی افزائش کے لیے درکار عوامل کو کم کیا

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



انجن ڈرائیور


رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…