وہ پریشانی میں بیگ کو کبھی گود میں رکھتی تھی‘ کبھی سیٹ کے نیچے اور پھر تھوڑی دیر بعد اسے دوبارہ اٹھا کر اس کا بکل ٹھیک کرنے کی کوشش میں لگ جاتی تھی‘ وہ چالیس بیالیس سال کی سپینش خاتون تھی‘ رنگت میں مورش مسلمانوں کی ہلکی سی جھلک دکھائی دیتی تھی لیکن عادتوں اور حرکتوں سے پکی سپینش تھی‘ سپین کے لوگ اپنی آنکھوں کے اضطرار‘ پلکوں کی تیز تیز لرزش اور اپنی فطری جلدی بازی سے پوری دنیا میں پہچانے جاتے ہیں اور اس کے ہاتھوں میں جلد بازی بھی تھی‘
پلکیں بھی تیز تیز چل رہی تھیں اور آنکھوں کی پتلیاں بھی سانپ کی طرح تیزی سے دائیں بائیں مچل رہی تھیں‘ میں نے اندازہ لگایا فلائیٹ کی افراتفری میں اس کے بیگ کا بکل ٹوٹ گیا ہے اور یہ اب اسے کسی نہ کسی طرح فکس کرنا چاہتی ہے اور یہ ظاہر ہے فلائیٹ میں ممکن نہیں لہٰذا وہ پریشانی میں مختلف جگاڑ لگاتی چلی جا رہی تھی‘ یہ دیکھ کر میرے اندر کے پنجابی نے آنکھیں کھولنا شروع کر دیں‘ ہم پنجابی فطرتاً شروع میں دوسروں کی پریشانیوں کو انجوائے کرتے ہیں اور تھوڑی دیر بعد وہ پریشانی ہمیں بھی پریشان کرنا شروع کر دیتی ہے اور اس کے بعد ہم بازو اڑس کر دوسروں کے پنگے میں کود پڑتے ہیں‘ میں بھی اس وقت اسی صورت حال کا شکار تھا‘ میرے اندر کا پنجابی آنکھیں کھول رہا تھا اور میں اس کی پریشانی سے پریشان ہوتا چلا جا رہا تھا‘ میں نے ہمت کی‘ کھنگار کر گلا صاف کیا اور اس سے مخاطب ہوا ’’آپ اگر چاہیں تو میں آپ کا بیگ ٹھیک کر سکتا ہوں‘‘ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور ہنس کر پوچھا ’’کیا آپ بیگز بناتے ہیں‘‘ میں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’ہرگز نہیں لیکن میں سفر کے دوران بے شمار مرتبہ اس صورت حال کا شکار رہا ہوں لہٰذا میں جانتا ہوں ان حالات میں انسان کو کیا کرنا چاہیے‘‘ وہ ہنسی اور اپنا بیگ میرے حوالے کر دیا‘
میں نے سب سے پہلے سٹرپ کا پیچ نکالا‘ پھر دانتوں سے جہاز کی ہینڈ فری کی تار کاٹی‘ تار سٹرپ کے سوراخ سے گزار کر اسے دونوں سائیڈز سے گرہ لگائی اور پھر ائیرفون توڑ کر گرہ میں پھنسا دیے‘ بیگ قابل استعمال ہو گیا‘‘ اس نے خوشی سے تالی بجائی‘ جھک کر شکریہ ادا کیا اور پوچھا ’’آپ نے یہ کہاں سے سیکھا؟‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’میں نے پانچ سال پہلے کری ایٹو سلوشنز کا چھوٹا سا کورس کیا تھا‘
وہ کورس جاپانی تھا اور اس میں ہمیں انسٹرکٹر نے کم ترین وسائل میں بڑے بڑے مسئلوں کے حل بتائے تھے‘‘ اس نے پوچھا ’’مثلاً‘‘ میں نے ہاتھ مل کر جواب دیا ’’مثلاً آپ واش روم میں ہیں اور وہاں ٹوائلٹ پیپرنہ ہو تو آپ کے پاس کیا آپشن بچتا ہے؟‘‘ اس نے آنکھوں کی پتلیاں پھیلا کر میری طرف دیکھا اور اس کے منہ سے بے اختیار کوئی واہیات سا سپینش لفظ نکل گیا‘ یقینا اس لفظ کا مطلب ہائے یا فٹے منہ ہو گا‘
میں گھبرا کر خاموش ہو گیا‘ وہ تھوڑی دیر رکی اور پھر سوچ کر بولی ’’انسان پھر کیا کرے؟‘‘ میں نے فوراً جواب دیا ’’بہت آسان حل ہے‘ آپ ۔۔۔۔‘‘ اور اس کے بعد مجھے چپ لگ گئی کیوں کہ اس صورت حال کا حل واقعی واہیات تھا اور مجھے اب اسے سمجھانے کے لیے مناسب الفاظ نہیں مل رہے تھے‘ میں نے تھوڑی دیر سوچا‘ لمبا سانس لیا اور آہستہ آواز میں جواب دیا ’’مردوں کو بنیان یا انڈرویئر کی قربانی دے دینی چاہیے اور اگر یہ بھی موجود نہ ہوں تو پھر جرابیں اتار کر استعمال کر لینی چاہییں‘‘ میں نے اس کے ساتھ ہی کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع کر دیا‘ جہاز تیزی سے میڈرڈ کی طرف اڑ رہا تھا۔
وہ تھوڑی دیر خاموش رہی اور اس کے بعد بولی ’’آپ کہاں جا رہے ہیں؟‘‘ میں نے اپنے ذہن سے جرابیں‘ انڈر ویئر اور بنیان کھرچ کر نکالی‘ لمبا سانس لیا اور آہستہ سے جواب دیا‘آج کی رات کے لیے میڈرڈ اور کل میں ہوانا (کیوبا) چلا جائوں گا‘ وہاں سے پرتگال آئوں گا اور پھر چند دن پیرس رہ کر واپس چلا جائوں گا‘ اس کی پتلیاں ایک بار پھر پھیلیں اور اس نے حیرت سے بھری آواز میں پوچھا ’’بزنس ٹور‘‘ میں نے جواب دیا ’’نہیں صرف سیاحت‘‘ اس نے پوچھا ’’اتنی دور کیوبا‘کیوں؟‘‘ سچی بات ہے
میرے پاس اس سوال کا کوئی ٹھوس جواب نہیں تھا‘ میں اسے کیا بتاتا کیوبا دنیا کے ان پانچ ملکوں میں شامل ہے جو 21 ویں صدی میں بھی اپنی اوریجنل شکل میں ہیں‘ یہ ملک آج بھی ماڈرن ازم کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں‘ آرگینک سبزیاں اور پھل کھاتے ہیں‘ ملک میں کھاد اور کیڑے مار دوائیاں نہیں ہیں‘ ساٹھ کی دہائی کی گاڑیاں ہیں‘ ملک میں خشک دودھ تک نہیں ملتا‘ لوگ شام کو گھروں سے باہر نکل آتے ہیں‘ گلیوں میں گاتے اور بجاتے ہیں‘ اپنی پسند کے لوگوں کے مجسمے بنا کر چوکوں اور چوراہوں میں لگا دیتے ہیں‘
ہنستے اور خوش ہوتے ہیں‘ اونچی آواز میں بات کرتے ہیں‘ عورتیں گھر اور مارکیٹ دونوں چلاتی ہیں‘ پورے ملک کے لیے فوجی تربیت ضروری ہے‘ وسائل بھی سب کے لیے برابر ہیں‘ لڑکیاں اپنی رانوں پر تمباکو رکھ کر انہیں رول کر کے سگار بناتی ہیں اور دنیا بھر کے مرد یہ سگار چوم چوم کر پیتے ہیں‘ وہاں فیڈل کاسترو 49برس کے اقتدار کے بعد بھی ہیرو رہا‘ وہ مر گیا لیکن آج بھی اپنی عوام کے دلوں میں زندہ ہے‘
میری پوری نسل چی گویرا کے خیالات کے ساتھ ساتھ پروان چڑھی‘ یہ ملک اس وقت دنیا کا پانچواں کمیونسٹ ملک ہے‘ کمیونزم اپنی جنم بھومی روس میں مر گیا لیکن یہ چائنہ‘ ویت نام‘ لائوس‘ شمالی کوریا اور کیوبا میں آج بھی زندہ ہے‘ جلد یا بدیر یہ یہاں سے بھی ختم ہو جائے گا لہٰذا میں کمیونزم کے خاتمے اور ماڈرن ازم کے سمندر میں ڈوبنے سے پہلے پہلے کیوبا دیکھنا چاہتا ہوں اور میں یہ بھی دیکھنا چاہتا ہوں
دنیا کی واحد سپر پاور امریکا کی ناک کے نیچے بیٹھ کر ایک چھوٹا سا کمیونسٹ ملک 120برس سے کیسے سروائیو کر رہا ہے؟ یہ امریکا کی ایک پھونک کی مار ہے لیکن امریکا کو آج تک اس پھونک کی جرات نہیں ہوئی‘ کیوں؟ میں اسے یہ سب کچھ بتانا چاہتا تھا لیکن میرے پاس مناسب الفاظ بھی نہیں تھے اور شاید اس خاتون کو ان میں کوئی دل چسپی بھی نہیں تھی‘ وہ ابھی ابھی اپنے بیگ کی ٹوٹی ہوئی سٹرپ کے ایشو سے نکلی تھی اور میرا تجربہ ہے ٹوٹی ہوئی سٹرپ جیسے معرکے کے بعد
کوئی خاتون کیوبا جیسے مسئلے میں الجھنا پسند نہیں کرتی لہٰذا میں نے پرانا نسخہ آزمایا‘ میں نے کنپٹی پر انگلی رکھی اور اسے پیچ کس کی طرح گھما کر قہقہہ لگا دیا‘ اس کے منہ سے اوہ نکلا اور وہ سمجھ گئی میرا دماغ خراب ہے اور میں دماغی خلل کی وجہ سے کیوبا جا رہا ہوں‘ جہاز تیزی سے میڈرڈ کی طرف پرواز کر رہا تھا۔میرے دو پرانے دوست ہیں‘ مخدوم عباس اور جہانزیب نواز‘
دوست بھی رزق کی طرح ہوتے ہیں‘ ہم جس طرح اپنے اپنے حصے کا رزق کھا کر اس دنیا سے رخصت ہوں گے بالکل اسی طرح ہم اپنے اپنے حصے کے دوستوں سے مل کر‘ ان کے ساتھ چل پھر کر ہی اس دنیا سے جائیں گے‘ یہ دونوں اس کیٹگری میں شامل ہیں‘ ان سے چھ‘ چھ ماہ رابطہ نہیں رہتا تھا لیکن اس کے باوجود سال میں ایک مرتبہ ان کے ساتھ دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں چند دن گزارنے کا
موقع ضرور مل جاتا ہے‘ ہم 2019ء میں فن لینڈ گئے تھے‘2020-21ء کورونا کی نذر ہو گیا لیکن ہم نے فیصلہ کیا ہم 2022ء میں دنیا کے کسی کونے میں ضرور اکٹھے ہوں گے‘ قرعہ نکالا اور کیوبا کے نام پر اتفاق ہو گیا‘ کیوبا کے لیے براہ راست فلائیٹ میڈرڈ سے دستیاب ہے لہٰذا جہانزیب ناروے سے میڈرڈ پہنچ گیا‘ مخدوم عباس آج کل پرتگال میں فیکٹری چلا رہا ہے‘ یہ وہاں سے آ گیا اور میں اسلام آباد سے چل پڑا‘ ہمارے اس سمال گروپ میں سہیل مقصود نئی انٹری ہیں‘ یہ غرناطہ میں کیش اینڈ کیری چلاتے ہیں‘
سادہ لیکن انتہائی سمجھ دار انسان ہیں‘میری ان سے چلتے پھرتے اچانک ملاقات ہوئی اور یہ ملاقات فوراً دوستی میں بدل گئی‘ یہ ہمارے ساتھ 2018ء میں آئس لینڈ گئے تھے‘ یہ بھی کیوبا کے گروپ میں شامل ہو گئے اور ہم سے پہلے غرناطہ سے میڈرڈ پہنچ گئے۔جہاز تیزی سے میڈرڈ کی طرف بڑھ رہا تھا‘ نیچے یورپ کے مختلف ملک اور شہر بکھرے ہوئے تھے‘ سردی کا زور ٹوٹ رہا تھا لیکن کہیں کہیں برف اب بھی نظر آ رہی تھی‘
برف اور اس کے اندر سے سر اٹھا کر اوپر کی طرف دیکھتے ہوئے چیڑھ کے درخت وہ منظر اوپر سے بھلا محسوس ہوتا تھا‘ میں مدت بعد گھر سے نکلا ہوں‘ کورونا نے زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا‘ اڑھائی برس بعد بندشیں کم ہو رہی ہیں لیکن اس کے باوجود ہوائی اڈوں اور جہازوں میں خوف باقی ہے‘ لوگ دوسروں کو دیکھ کر منہ پر ماسک چڑھا لیتے ہیں اور دور دور کھڑے ہو کر بات کرتے ہیں‘
ویکسی نیشن سر ٹیفکیٹ اور کووڈ ٹیسٹ ابھی تک لازم ہیں چناں چہ انسان‘ انسان ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے دور ہے اور یہ دوری دور کھڑے ہو کر ایک دوسرے سے پوچھ رہی ہے کیا انسان اب کبھی ایک دوسرے کے قریب نہیں آئے گا؟ میں یہ سوچتا جا رہا تھا اور کھڑکی سے نیچے جھانکتا جا رہا تھا‘ خاتون نے اچانک کھنگار کر گلا صاف کیا اور پوچھا ’’آپ نے یہ تو بتایا ہی نہیں اگر واش روم میں خاتون ہو اور ٹوائلٹ پیپر ختم ہو جائے تو اسے کیا کرنا چاہیے؟‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھا اور شرما کر چہرہ نیچے کر لیا‘ اس نے خوف ناک قہقہہ لگایا۔