اسلام آباد( آن لائن ) وزیر اعظم عمران خا ن نے کہا ہے کہ کہ کبھی نہ کبھی تو افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنا ہوگا، عالمی برادری کو افغان حکومت کے ساتھ ’’کچھ لو اور دو‘‘ کی بنیاد پر کام کرنا چاہیے، دہشتگردی کیخلاف امریکی جنگ نے ہی دہشتگردوں کو جنم دیا،امریکی پالیسی کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑا کیوں کہ ہم اتحادی تھے، بھارت کو دوسرے لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں،
حکومت میں آتے ہی میں نے بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ، بدقسمتی سے بھارت آر ایس ایس نظریات کی لپیٹ میں آچکا ہے ، مودی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصیت حیثیت کا خاتمہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے ،مغربی میڈیا میں چین کا صحیح تصور پیش نہیں کیا جاتا ۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خا ن نے کہا کہ افغانستان سے پاکستانی طالبان، بلوچ علیحدگی پسند اور داعش پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں، ہمیں معلوم ہے امریکا 20 سال پہلے افغانستان کیوں آیا تھا، امریکا بھی یہی چاہتا تھا کہ افغانستان افراتفری کا شکار نہ ہو، عالمی برادری نئی افغان حکومت کو تسلیم کرنے سے پہلے گارنٹی چاہتی ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ عالمی برادری کو افغان حکومت کے ساتھ ’’کچھ لو اور دو‘‘ کی بنیاد پر کام کرنا چاہیے، دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ سے دہشت گردی بڑھی، امریکی ڈرون حملوں میں بڑی تعداد میں معصوم لوگ مارے گئے، دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان نے 80 ہزار جانیں گنوائیں، امریکی جنگ کی وجہ سے پاکستان میں جگہ جگہ خودکش حملے ہوتے رہے۔عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں بدترین انسانی بحران جنم لے رہا ہے، اگر طالبان حکومت پر دباؤ ڈالا گیا تو بہتری کی امید نہیں، کبھی نہ کبھی افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنا ہوگا،
امریکیوں کو سمجھنا چاہیے کہ افغان عوام کن سنگین مشکلات کا شکار ہیں۔انہوں نے کہا کہ کیا افغانستان میں طالبان کے علاوہ کوئی متبادل اس وقت موجود ہے؟ امریکی پالیسی کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑا کیوں کہ ہم اتحادی تھے۔ بھارت اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ میں بھارت کو دوسرے لوگوں
سے زیادہ جانتا ہوں، بھارت کے کئی لوگ میرے دوست ہیں، ان کے ساتھ تعلق ہے، حکومت میں آتے ہی میں نے بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا، مودی سے کہا آپ ایک قدم بڑھائیں گے تو ہم دو قدم آگے آئیں گے، مودی سے کہا کہ مسئلہ کشمیر اچھے پڑوسیوں کے طور حل کریں۔وزیراعظم نے کہا کہ بدقسمتی سے بھارت آر ایس ایس
نظریات کی لپیٹ میں آچکا ہے، بھارت میں آر ایس ایس نظریات کی حکمرانی ہے، گوگل سے آپ کو معلوم ہو جائے گا آر ایس ایس بنانے والے کون تھے، آر ایس ایس کو 3 بار دہشت گرد تنظیم قرار دیا جا چکا ہے، کئی بار پہل کی لیکن نفرت اور تشدد کے نظریات کی وجہ سے جواب نہ ملا، جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھارت کے اپنے لیے خطرناک
اور نقصان دہ ہے۔عمران خان نے کہا کہ اقوام متحدہ میں پہلی بار خطاب کیا تو یہ مسئلہ اٹھایا تھا، پلوامہ میں جو ہوا بھارت اس کا الزام پاکستان پر لگا رہا تھا، بھارت سے کہا کہ پاکستان کے ملوث ہونے کا ثبوت دیں، ثبوت کے بجائے بھارتی طیاروں نے پاکستان میں بم گرا دیے، ہم نے جواب میں بھارتی طیارہ مار گرایا، ان کا پائلٹ واپس کر دیا،
پائلٹ واپس کر کے دنیا کو بتا دیا ہم جنگ نہیں چاہتے۔انہوں نے کہا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات ہوئی، انہیں بھی کہا کہ مسئلہ کشمیر حل ہونا چاہیے، مسئلہ کشمیر کے حل تک دو ایٹمی طاقتوں میں جنگ کا خدشہ ختم نہیں ہو سکتا، 5 اگست کو مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصیت حیثیت ختم کر دی، بھارتی اقدام
اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے، مودی حکومت نے جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی کر رکھی ہے۔چین سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ مغربی میڈیا میں چین کا صحیح تصور پیش نہیں کیا جاتا،وزیراعظم کا کہنا تھا کہ چین میں ہمارے سفیر سنکیانگ کے علاقے میں گئے، ہمارے سفیر کے مطابق سنکیانگ کی صورتحال مغربی ممالک کے بیانات سے مختلف ہے، مقبوضہ کشمیر اقوام متحدہ کے مطابق متنازع
علاقہ ہے، مقبوضہ کشمیر میں قتل عام ہورہا ہے، سنکیانگ اور کشمیر کی صورتحال کا کوئی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا، چین اورمغربی دنیا کے نقطہ نظر ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں، ہم ایک اور سرد جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں اور ہمیں دوسری سرد جنگ سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مغربی میڈیا چین میں مسلمانوں پر سختیوں کی تصویر کشی کرتا ہے، چین مسلسل مغربی میڈیا کے دعوؤں کی تردید کر رہا ہے۔