کوئٹہ (آن لائن )پاکستان میں رواں مہینے متحدہ عرب امارات، بحرین اور قطر کے حکمران اور ان کے وزرا، فوجی سربراہان اور شاہی خاندان کے ارکان تلور کا شکار کر رہے ہیں جس کے لیے پاکستان کی وزرات خارجہ نے پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے اضلاع میں ان مہمانوں کے شکار کے خصوصی اجازت نامے جاری کیے ہیں۔پاکستان کی وزرات خارجہ کی جانب سے بنائے گئے
ضابطہ اخلاق کے مطابق تلور کا شکار صرف بازوں کی مدد سے کیا جائیگا اور اس میں بندوق، جال وغیرہ کا استعمال نہیں ہوگا۔شکار کی اجازت یکم نومبر سے لیکر 31 جنوری تک ہوگی اس کے بعد 10 روز سے زیادہ قیام پر ایک لاکھ امریکی ڈالر جرمانہ عائد ہوگا۔صوبائی محکمہ جنگلی حیات کا سٹاف ساتھ میں تعینات ہوگا جو ہر شکار کی گنتی کرے گا، ہر پرمٹ پر 100 تلور کے شکار کی اجازت ہوگی اس سے زیادہ شکار پر فی پرندہ دس ہزار امریکی ڈالر ادا کرنے ہوں گے تلور کے علاوہ کوئی اور شکار نہیں کیا جائیگا۔شکار کے پرمٹ جن کے نام جاری کیے گئے ہیں صرف وہ شکار کرنے کے اہل ہوں گے، اگر ان کے علاوہ کوئی شکار کا خواہشمند ہے تو متعلقہ سفارتخانے کو وزارت خارجہ کو مطلع کرنا ہوگا۔مہمانوں کے روانگی کے سات روز کے اندر کیمپ ختم کر دیے جائیں گے، ان جگہوں کو اصل حالت میں بحال کیا جائیگا، ان کیمپوں کا تصویری ریکارڈ شکاری ٹیمیں اور محکمہ جنگلی حیات اپنے طور پر محفوظ رکھے گا۔شکار کے لیے بازوں کے عارضی اجازت نامے جاری کیے جائیں گے جو بین الاقومی کنوینشن سائیٹس کے مطابق ہوں گے، ان بازوں کی تلور کے علاقوں میں تربیت کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔پاکستان کی وزارت خارجہ نے ہر شخصیت کے لیے ایک لاکھ امریکی ڈالر شکار کی فیس متعین کی ہے جس کا 50 فیصد مقامی ترقی کے لیے مختص ہوگا، 35 فیصد تلور کے آماجگا ہ کی بہتری اور 15 فیصد سکیورٹی کے مد میں ہو گا۔شکار کے ہر علاقے کے لیے ایک لاکھ امریکی ڈالر فیس ادا کی جائیگی جبکہ بازوں کی عارضی آمد اور روانگی کی مد میں ایک ہزار فی باز فیس وصول کی جائیگی۔پاکستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ مہمان مقامی ترقی میں مدد اور فنڈز کے سلسلے میں مقامی انتطامیہ سے رابطہ کرسکتے ہیں، ان میں قلیل مدت والے منصوبوں میں ووکیشنل اور میکنیکل تربیتی سینٹرز، سولر فارمز کا قیام، پینے کے پانی کا کھوج شامل ہے جبکہ طویل مدتی منصوبوں میں پانی کے ذخائر کی تعمیر، زرعی ٹیکنالوجی کی تنصیب شامل ہے۔اس کے علاوہ مقامی لوگوں کے لیے خلیجی ریاستوں میں روزگار اور تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ متبادل توانائی کے منصوبے بھی شروع کیے جا سکتے ہیں۔بحرین کے حکمران خاندان کے سات افراد کو شکار کی اجازت دی گئی ہے، جن میں بحرین کے بادشاہ حمد بن عیسی بن سلمان، ان کے چچا شیخ ابراہیم بن حماد، بحرین کے محکمہ دفاع کے کمانڈر انچیف فیلڈ مارشل شیخ خلیفہ بن احمد الخلیفہ، بحرین کے بادشاہ کے کزن جنرل شیخ راشد بن عبد اللہ، محکمہ دفاع کے لیے بادشاہ کے مشیر شیخ عبداللہ بن سلمان
بادشاہ کے کزن شیخ احمد بن علی الخلیفہ، بادشاہ کے کزن شیخ خالد بن راشد بن عبد اللہ شامل ہیں۔بحرین کی ان شخصیات کی اکثریت کو سندھ کے جن میدانی علاقوں میں شکار کی اجازت ہو گی، ان میں جامشورو، سجاول، نوشہرو فیروز، ملیر، ٹنڈو محمد خان شامل ہیں جبکہ بحرین کے بادشاہ جامشورو کی تحصیل تھانہ بولا خان، مانجھند اور سیہون میں شکار کھلیں گے، فیلڈ مارشل شیخ خلیفہ بن احمد بلوچستان کے ضلعے موسی خیل اور لیفٹیننٹ جنرل شیخ راشد بن عبد اللہ کو جعفر آباد اور نوشہرو فیروز میں
شکار کی اجازت دی گئی ہے۔قطر کے حکمران اور ان کے خاندان و افواج کے 18 افرد کو شکار کی اجازت ہوگی، جن میں قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد التھانی کو پنجاب، بلوچستان اور سندھ کے اضلاع جھنگ، قلات اور تھر پارکر میں کیمپ لگاکر شکار کرنے کی خصوصی اجازت دی گئی ہے۔قطر کے وزیر اعظم و وزیر داخلہ شیخ خالد بن خلیفہ بن عبد العزیز جیکب آباد، قطر کے امیر کے والد شیخ حماد بن خلیفہ خوشاب، امیر کے مشیر اور ڈپٹی وزیرِ اعظم شیخ محمد بن خلیفہ لورا لائی بلوچستان، امیر کے بھائی
شیخ جاسم بن حمد التھانی موسی خیل، شاہی خاندن کے رکن شیخ فیصل بن نصر بن حماد بلوچستان کے علاقے قمر الدین کاریز، شاہی خاندن کے رکن شیخ محمد بن علی بن عبد اللہ تھانی تربت بلوچستان، شاہی خاندان کے رکن علی بن عبد اللہ تھانی بلوچستان، قطر کے سابق وزیر اعظم اور وزیر خارجہ شیخ فلاح بن جاسم اور شیخ فہد بن جاسم بن جابور التھانی جھل مگسی میں شکار کریں گے۔شاہی خاندان کے رکن ڈاکٹر فہد بن عبداللہ رحمان بن حماد التھانی کو تھر پارکر، شیخ جاسم بن فیصل بن قاسم بہاولپور، شیخ فیصل بن قاسم ڈیرہ بگٹی
، شیخ محمد بن فیصل قلعہ سیف اللہ، شیخ عبد الرحمان بن جاسم میانوالی، شیخ عبد اللہ بن محمد ضلع خوشاب، شیخ محمد عبد اللہ بھکر اور قطر کے محکمہ دفاع کے مملکتی وزیر حمد علی العطیہ خالق آباد قلات میں شکار کریں گے۔متحدہ عرب امارات کے سربراہ اور ابو ظہبی کے حکمران شیخ خلیفہ بن الزید النہیان کو پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے ایک درجن کے قریب اضلاع میں شکار کی اجازت دی گئی ہے،
جن میں رحیم یار خان، راجن پور، چکوال، سکھر، گھوٹکی، سانگھڑ، نواب شاہ، خیرپور، ژوب، اوڑماڑہ، پسنی، خاران، ڈیرہ بگٹی، پنجگور اور واشک شامل ہیں۔متحدہ عرب امارات کے نائب صدر اور وزیراعظم اور دبئی کے حکمران شیخ محمد بن الرشید المکتوم مظفرگڑھ، بہاولپور، بلوچستان میں خضدار، لسبیلہ، چاغی میں شکار کرسکتے ہیں، ابو ظہبی کے ولد عہد اور عرب امارات کی افواج کے
سپریم کمانڈر شیخ محمد بن زید النہیان سبی میں، دبئی کے ولی عہد شیخ حمدان بن محمد مظفر گڑہ اور بہالپور میں شکار کریں گے، شاہی گھرانے کے فرد شیخ ہمدان بن زید النہیان ضلع سبی اور کچھی میں جبکہ سندھ میں خیرپور، ناتھن دادو غیبی، ڈیرو ضلع لاڑکانہ، شھداد کوٹ، خیرپور اور دادو میں شکار کھلیں گے۔متحدہ عرب امارت کی افواج کے ملٹری سربراہ میجر جنرل شیخ احمد بن راشد عمر کوٹ،
تھر پارکر، شاہی گھرانے کے رکن اور صدر کے مشیر ڈاکٹر شیخ سلطان بن خلیفہ ڈیرہ مراد جمالمی، شاہی خاندان کے رکن شیخ رشاد بن خلیفہ بدین، جنگشاہی ٹھٹہ، ملیر کے علاقے دہابیجی، مکلی میں شکار کریں گے۔شاہی خاندان کے ایک اور رکن میجر جنرل شیخ المر بن مکتوم کوئٹہ کی تحصیل سمنگلی اور پنج پائی میں، شاہی گھرانے کے ہی رکن شیخ سیف بن محمد کو دکی لورلائی اور شاہی خاندن کے
رکن شیخ سلطان بن تھانون کو میرپوخاص میں شکار کھیلنے کی اجازت دی گئی ہے۔پاکستان میں خلیجی ممالک کے سربراہان کی شکار کے لیے آمد کا باقاعدہ سلسلہ جنرل ایوب خان کے دور حکومت سے شروع ہوا تھا۔ گزشتہ کچھ عرصے سے جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے اس شکار کی مخالفت کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں بھی یہ معاملہ زیر سماعت رہا جہاں پاکستان کی
وزرات خارجہ کا موقف تھا کہ یہ ان کا سفارتی محاذ ہے۔کراچی میں پچھلے دنوں ناظم جوکھیو نامی نوجوان کی جانب سے شکاری ٹیم کو روکنے اور بعد میں اس کی تشدد میں ہلاکت کے بعد ایک بار پھر سوشل میڈیا پر عرب شکاری زیر بحث آئے اس سلسلے میں ایک پٹیش بھی جاری ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ شکار کے پرمنٹ منسوخ کیے جائیں۔بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے محکمہ جنگلی حیات کے بعض حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ شکاری شخصیات کو انتہائی پروٹوکول حاصل ہوتا ہے، ان کے محکمے کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ ان کی شکاری سرگرمیوں کی نگرانی کر سکیں، جبکہ ان میں سے کچھ تو متعلق فیس بھی ادا نہیں کرتے۔