کابل (مانیٹرنگ ڈیسک /آن لائن )افغانستان کے صوبے پنجشیر میں طالبان اور قومی مزاحمتی فورس کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے بعد جھڑپیں جاری ہیں۔نجی ٹی وی کے مطابق وادی پنجشیر طالبان کے خلاف مزاحمت کا آخری گڑھ ہے اور اس کے علاوہ وہ تقریباً پورے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرچکے ہیں۔طالبان نے وادی پنجشیر کا محاصرہ کیا ہوا ہے اور اب مذاکرات کی ناکامی کے بعد
جھڑپیں شروع ہوگئی ہیں۔دوسری جانب افغانستان کے صوبے پنجشیر میں طالبان مخالف قومی مزاحمتی فرنٹ نے دعوی کیا ہے کہ منگل کی رات کو انھوں نے وادی پنجشیر کے داخلی رستے پر طالبان کا حملہ پسپا کر دیا ہے جبکہ طالبان نے کہا ہے کہ انھوں نے ابھی اس وادی پر سرے سے حملہ ہی نہیں کیا ہے۔قومی مزاحمتی فرنٹ کے ترجمان فہیم دشتی نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’طالبان اپنی قسمت آزمانا چاہتے تھے، لیکن وہ خوش قسمت نہیں تھے، ان کے حملے کو پسپا کر دیا گیا۔‘فہیم دشتی نے کہا کہ طالبان نے کئی افراد کو ہلاک اور زخمی کیا ہے اور کئی مزاحمتی جنگجو زخمی ہوئے ہیں۔تاہم طالبان نے بی بی سی کو بتایا کہ پنجشیر پر حملہ نہیں کیا گیا۔طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے معاون بلال کریمی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی افواج پنجشیر کا محاصرہ کر رہی ہیں لیکن انھیں امید ہے کہ پنجشیر کا مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل ہو جائے گا۔قومی مزاحمتی فرنٹ کے دعوے کے بارے میں انھوں نے کہا کہ طالبان فورسز جو کہ ’صوبہ پروان میں تھیں‘ تو ان پر اپوزیشن نے حملہ کر دیا۔ ان کے مطابق اس جھڑپ میں ان کی افواج مخالفین کے کئی مورچوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئیں اور دشمن کی افواج وہاں سے بھاگ گئیں۔ دریں اثناء طالبان نے پنجشیر کے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ اْن لوگوں کو جگہ نہ دیں جو مذاکرات کی بجائے لڑائی کا راستہ چْنتے ہیں۔ بی بی سی کے کے مطابق طالبان کے دعوت و ارشاد کمیشن کے سربراہ امیر خان متقی نے اپنے ایک تازہ آڈیو پیغام میں کہا ہے کہ نئے افغان حکومت میں پنجشیر کے لوگوں سمیت تمام افغان شامل ہوں گے۔انھوں نے کہا کہ ’اب پورے ملک میں کوئی جنگ نہیں ہے اور لوگ پرسکون ہیں۔ تو ایسے وقت میں پنجشیر کے لوگوں کو بھی پرسکون ماحول میں رہنے کی ضرورت ہے۔‘اگرچہ امیر خان متقی نے اس آڈیو پیغام میں کسی کا نام نہیں لیا، تاہم واضح رہے کہ معزول افغان نائب صدر امر اللہ صالح اور سابق افغان گوریلا کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود اس وقت پنجشیر میں ہیں اور انھوں نے طالبان کے خلاف مزاحمت کا اعلان کیا ہے۔طالبان کے خلاف دونوں رہنما قومی مزاحمتی فرنٹ کے زہر اہتمام جنگجوؤں کی سربراہی کر رہے ہیں۔ طالبان رہنما امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ جو لوگ کابل اور دیگر صوبوں میں مزاحمت کرنے میں ناکام رہے انھیں پنجشیر جیسے چھوٹے سے علاقے میں جنگ کو ہوا نہیں دینی چاہیے۔