اسلام آباد (اے پی پی) پاکستان میں جہاں لاک ڈاؤن کو جلدی ختم کرنے کے باوجود کووڈ۔19 پر قابو پانے میں کامیابی ہوئی وہاں بہت سی بین الاقوامی تنظیموں اور اشاعتوں میں مودی کی حکومت کی ناکام حکمت عملی کی وجہ سے بھارت میں کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
’’الجزیرہ‘‘ نے کرونا کے خلاف پاکستان کی حکمت عملی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے کرونا وائرس کے خلاف غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے۔ ایسا لگتا ہے جنوبی ایشیا کی 20 کروڑ آبادی نے کووڈ۔19 کے خلاف جنگ جیت لی ہے۔ پاکستان میں کووڈ۔19 کا 6 ماہ بعد پہلا کیس سامنے آیا تاہم فعال کیسوں کی تعداد میں تیزی سے کمی آئی، یہاں تک کہ شرح اموات ایک ہندسہ تک پہنچ گئی۔ پاکستانی ڈاکٹروں اور وبائی امراض کے ماہرین نے الجزیرہ کو بتایا کہ متعدد عوامل جن میں لاک ڈاؤن پر مرحلہ وار عملدرآمد، ہسپتالوں میں کیسوں کا مؤثر انتظام اور علاج کے پروٹوکول اور آبادیاتی اور ثقافتی عوامل نتائج کے حصول میں مددگار ثابت ہوئے۔ آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کراچی میں متعدی بیماریوں کے سربراہ ڈاکٹر فیصل محمود نے کہا کہ اس وائرس کے پھیلاؤ کی جس طرح ہم توقع کر رہے تھے یہ اس سے بہت کم رہا۔ انہوں نے کہا کہ جو اعداد و شمار سامنے آ رہے تھے، فوج اور عام شہری دونوں کے ساتھ مل کر متعدد اداروں نے وائرس کے پھیلاؤکو کم رکھنے کیلئے کام کیا۔ ایشیا پیسفک ریجن کے مطابق حکومت پاکستان نے اپنی معیشت کو مختلف مراحل میں دوبارہ کھولا اور اس نے وہ حاصل کر دکھایا جو ناممکن تھا۔ جس وقت ملک میں روزانہ 5 ہزار کرونا وائرس کے کیس سامنے آ رہے تھے اور مقامی سطح پر اس کا پھیلاؤ 90 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔
ایسے وقت میں حکومت نے لاک ڈاؤن اٹھانے کا فیصلہ کیا، اگست کے وسط میں دنیا میں کووڈ کے کیس 2 کروڑ 30 لاکھ سے تجاوز کر گئے اور 8 لاکھ 10 ہزار سے زائد اموات ہوئیں، پاکستان میں یہ کیس نسبتاً بہت کم رہے اور 2 لاکھ 92 ہزار متاثر جبکہ 6 ہزار 200 اموات ہوئیں جبکہ دنیا میں 40 لاکھ افراد متاثر ہوئے اور گذشتہ تین ہفتوں میں 2 لاکھ سے زائد اموات ہوئیں، پاکستان میں صرف 12 ہزار کیس سامنے آئے اور 250 اموات ہوئیں۔
بھارت میں 18 اگست کے بعد 27 لاکھ کیس ریکارڈ کئے گئے جو امریکہ اور برازیل کے بعد دنیا میں تیسرا نمبر ہے۔ ہاورڈ گلوبل ہیلتھ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اشیش جا نے کہا کہ مجھے خدشہ ہے کہ اگر چیزیں تبدیل نہ ہوئیں تو بھارت دنیا میں کسی بھی دوسرے مقام سے زیادہ کیسز کا حامل ملک بن جائے گا، ایک ارب 30 کروڑ کی آبادی میں اس کے تیزی سے پھیلائو کی گنجائش موجود ہے، بھارت میں لاکھوں افراد انتہائی غربت کا شکار ہوئے ہیں اور شرح نمو میں اضافہ بھی خطرناک حد تک کم ہونے کی توقع ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں دیہی علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگوں نے شہروں کا رخ کیا تاہم ان میں سے کئی لوگوں کو بے سہارا چھوڑ دیا گیا۔ بھارت کے فلاحی نظام میں خلیج کے باعث لاکھوں افراد جو اندرون ملک ہجرت کرنے والے محنت کش تھے انہیں حکومتی فلاحی ادائیگی اور خوراک نہیں ملی، سینکڑوں کی تعداد میں موت کا شکار ہوئے۔ بھارت میں اگر اس وائرس میں کمی نہ آئی تو ماہرین معیشت خوفزدہ ہیں کہ بھارت اس سے کیسے نکلے گا اور اس دوران غریب تر افراد کا کیا بنے گا۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی میں معیشت اور منصوبہ بندی کے مرکز کی چیئرپرسن جیتی گھوش کا کہنا ہے کہ بھارت میں 10 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے معمولی اوپر ہیں اور وہ سب غربت کی لکیر سے نیچے آ جائیں گے، بھارت میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہونے والے وسیع پیمانے پر معاشی رکاوٹ نے برسرروزگار خواتین کو متاثر کیا ہے چونکہ ملازمت شدہ 95 فیصد خواتین ہندوستان کی غیر رسمی معیشت میں کام کرتی ہیں ، بہت سی خواتین نے اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو لئے، یہاں تک کہ گھریلو ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے ان پر بوجھ باقی رہا۔
بہت سے لوگوں نے ہندوستان کی دیہی روزگار سکیم کے لئے درخواستیں دیں جو کئی گھنٹے غیر ہنرمند افراد کو مزدوری کی ضمانت دیتا ہے جبکہ بعض نے کھانے کی ادائیگی کے لئے زیورات بیچے یا قرض لئے۔ انٹرنیشنل سنٹر فار ریسرچ برائے خواتین دہلی کے روی ورما نے کہا کہ کووڈ کی صورتحال نے کمانے والے اور نگہداشت دہندگان کی حیثیت سے خواتین پر بوجھ کئی گنا بڑھا دیا، وہ کنبے کے صف اول کے محافظ ہیں۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات اسد عمر نے کورونا کے خلاف جنگ میں پاکستان کی ابتدائی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے ’’دی ڈپلومیٹ‘‘ کو بتایا کہ میڈیا نے بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا جس کی حمایت کی گئی، ہم نے مختصر عرصہ میں اپنی ٹیسٹ کی صلاحیت میں اضافہ میں کامیابی حاصل کی اور ایک جدید ترین ٹریکنگ سسٹم کا اطلاق کیا جو اوپر کی سطح تک چلا گیا۔ اسد عمر جو نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سی او سی) سے کورونا سے متعلق امور بھی نبھاتے ہیں۔
نے کہا کہ عالمی سطح پر یہ اعتراف ہے کہ معاشرے میں طرز عمل کی تبدیلی کے ذریعہ وائرس کے پھیلاؤ کو کم کیا جا سکتا ہے، عوام کو اس خطرے سے آگاہ کرنے کے ساتھ یہ رضاکارانہ ہو سکتا ہے اور خود کو کیسے بچایا جائے یا انتظامی طور پر اس کا نفاذ کیا جا سکتا ہے، ہم نے دونوں راستوں کا انتخاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے تین ماہ تک ہم نے رویوں میں نمایاں تبدیلی دیکھی، لوگ ماسک پہنتے اور سماجی فاصلہ کو برقرار رکھتے، ایک بار جب معاملات سست پڑ گئے تو ہم نے ایس او پیز پر عمل میں کمی ہوتے دیکھی۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد عیدالاضحی کی تقریبات کا آغاز ہوا جس کی تعطیلات میں ہزاروں افراد نے سیاحتی مقامات کا رخ کیا۔ بین الاقوامی ماہرین صحت نے مشاہدہ کیا کہ جہاں کچھ ممالک جیسے پاکستان، چین اور جرمنی کرونا کے پھیلائو میں کمی میں کامیاب ہوگئے ہیں، امریکہ، ہندوستان اور برازیل جیسے دوسرے ممالک کو اب بھی وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان واحد ملک ہے جس نے ایک متوقع معاشی بدحالی کو بحال کرنے میں کامیابی حاصل کی کیونکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے اپنے منصوبے پر نظرثانی کی تھی جو اس کے بعد اپریل میں پاکستان کے لئے پیش گوئی سے کہیں بہتر تھی۔
معاشی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ سب دانشمندی اور بروقت فیصلوں کی بدولت ہوا ہے۔ این سی او سی کے عہدیدار نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی کے بعد ہم عام لاک ڈاؤنز سے سمارٹ لاک ڈاؤن کی طرف منتقل ہو چکے ہیں اور مائیکرو سمارٹ لاک ڈاؤن سے اس مرض میں مزید کمی ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری روزانہ کی ٹیسٹ کی صلاحیت فروری میں 472 ٹیسٹ سے بڑھ کر 60 ہزار سے زیادہ ٹیسٹ ہو چکی ہے اور لیبز کی تعداد 4 سے بڑھ کر 133 ہو گئی ہے۔
اب تک 23 لاکھ 60 ہزار ٹیسٹ کئے جا چکے ہیں اور فی الحال ہم اوسطاً 22 ہزار ٹیسٹ روزانہ کر رہے ہیں، ہمارے ہسپتالوں میں موجود 89 فیصد وینیٹیلیرز خالی ہیں اور پاکستان میں خطہ میں کرونا وائرس کے مریضوں کے صحت یاب ہونے کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو 93 فیصد ہے۔ ہم خوش ہیں جب ہندوستانی شہریوں کو سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، پاکستان میں لوگ مذہبی تہواروں اور اور یوم آزادی جیسے پروگرام منا رہے ہیں۔