راولپنڈی(آن لائن)آل پرائیویٹ سکولز منیجمنٹ ایسو سی ایشن کے ڈویژنل صدر ابرار احمد خان نے کہا کہ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کے پندرہ ستمبر کو سکول کھولنے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں ،کل کے بین الصوبائی وزراء اجلاس میںفیصلہ سامنے آیا کہ سکول یکم ستمبر کو کھولے جائیں گے لیکن آج وفاقی وزیر کا ایک نیا بیان سامنے آگیا ہے ،جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت تعلیمی شعبے کو یکسر نظر انداز کررہی ہے
اور لاک ڈائون کا بنیا دی مقصدنجی تعلیمی اداروں کا استحصال کرنا ہے ،اور انھیں مزید تباہی کے دھانے پر پہنچانا ہے ،کیونکہ حکومتی غلط پالیسوں کی وجہ سے پہلے ہی ملک بھر میں چالیس فیصد تک نجی تعلیمی ادارے بند ہوچکے ہیں ،اور جو باقی رہ گئے ہیں ان پر بجلی ،گیس،پانی کے بلوں ،اور بے شمار ٹیکسز کی بھر مار کرکے انھیں مجبور کیا جارہاہے کہ وہ بھی تعلیم دینا بند کرکے کوئی اور کاروبار کریں ،انھوں نے مزید کہا ہے کہ حکومت کی ترجیحات سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ وہ تعلیم کے شعبے کو کبھی بھی اپنی ترجیحات میں شامل نہیں رکھ رہی ہے ،ملک میں شاپنگ مالز،بازار ،پارکس اور دیگر املاک کو مرحلہ وار کھول دیا گیا،لیکن نہیں کھولے گئے تو وہ تعلیمی ادارے ہیں ،کیا حکومت تعلیمی اداروں کے بارے میں کوئی ایس او پیز تیار کرنے میں ناکام رہی ہے ،جس کی وجہ سے ملک کے لاکھوں طلباء و طالبات کا مستقبل تاریک ہونا شروع ہوگیاہے،طلباء و طالبات کو تعلیمی نقصان ہواہے کو اگے کئی سالوں تک پورا نہیں ہو سکتاہے، کرونا وائرس ان کو نگل رہا ہے۔ ہمارے مطالبات سکولوں کو کھولنے کے لئے نہیں بلکہ بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرنا ہے۔ اس سے قبل متعدد بار تجاویز دی جا چکی ہیں کہ بچوں کی تعلیم کے لئے سستے سٹوڈنٹ انٹرنیٹ پیکیج کا اجرا کیا جائے اور والدین کو کم ازکم یہ سہولت دی جائے تاکہ جو سکول آن لائن تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں وہ اس سے مستفید ہو سکیں۔ جو
سکول اور والدین آن لائن طریقہ تعلیم سے مستفید ہونے سے قاصر ہیں ان کے لئے اساتذہ کو سکولوں میں آنے سے نہ روکا جائے تاکہ وہ ورک شیٹس وغیرہ بنا کر بچوں کی تعلیم جاری رکھ سکیں۔جو اساتذہ نجی سکولوں میں پڑھا رہے ہیں ان کے لئے ریلیف کا اعلان کیا جائے۔تاکہ وہ سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور نہ ہو جائیں۔ اتنا عرصہ سکول بند رہنے سے والدین فیسوں کی ادائیگی ایک بوجھ محسوس کرتے ہیں۔ان کو ریلیف دینے کا یہ بھونڈا طریقہ
استعمال نہ کیا جائے کہ سکول ان کو بیس فیصد فیس معاف کرے۔ والدین کے لئے فنڈ مہیا کئے جائیں تاکہ وہ اپنے بچوں کی فیس وقت پر ادا کر سکیں۔ نجی سکولوں کو فیسوں کی عدم ادائیگی سے بجلی، پانی اور گیس کے بل ادا کرنے، بلڈنگز کے کرائے اور تنخواہوں کی ادائیگی میں جو دشواریاں پیش آ رہی ہیں ان کا سدباب کیا جاتا یا کم ازکم اس کے متعلق مذکورہ میٹنگ میں سوچا جاتا تو شاید نجی سکولوں کے پرنسپلز اور ان میں کام کرنے والے اساتذہ کی اشک شوئی ہوتی۔ اگر اب بھی ہماری گذارشات پر غور نہ کیا گیا تو ستمبر تک کم از کم 60 فیصد نجی ادارے بند ہو جائیں گے۔