اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار مظہر برلاس اپنے کالم ’’مولانا طارق جمیل پر غصہ کیوں؟‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔خواتین و حضرات! ٹی وی اینکرز نے کیوں برا منایا؟ ان سے متعلق وزیراعظم عمران خان نے بہت کچھ کہا مگر وہ چپ رہے، آصف زرداری انہیں سیاسی اداکار کہتے تھے۔رانا ثناء اللہ نے تو اینکرز کے بارے میں ایسی بات کہی کہ میں وہ شرمناک بات لکھ بھی نہیں سکتا،
اس کے علاوہ بھی کئی لوگوں نے بہت کچھ کہا مگر یہ سب چپ رہے اور خوشیاں منانے والے یہ بھول گئے کہ فلسفۂ آزادیٔ اظہار کیا کہتا ہے؟ مولانا طارق جمیل کو اللہ تعالیٰ نے خطابت کے جوہر سے نواز رکھا ہے، فرقہ واریت سے کہیں دور، محبت گھولتی ہوئی گفتگو مولانا طارق جمیل کا خاصہ ہے۔ لوگ ان کی گفتگو بھرپور توجہ سے سنتے ہیں۔انہوں نے پیارے رسولؐ کی حدیث کی روشنی میں معاشرے کی جو عکاسی کی وہ بالکل درست ہے۔ ذرا سوچئے، کیا ہمارے معاشرے میں جھوٹ، دھوکا اور بے حیائی نہیں؟ کیا یہاں رشوت کے بازار گرم نہیں؟ کیا ملاوٹ اور بددیانتی نہیں؟ کیا یہاں گراں فروشی نہیں؟ کیا ہمارے ملک میں لوگوں کی جائیدادوں پر قبضے نہیں ہوتے؟ کیا ملک میں زکوٰۃ کا نظام درست ہے؟ کیا یہاں پولیس ظالم کے ساتھ کھڑی نہیں ہوتی؟ کیا یہاں مافیاز بددیانتی کا مظاہرہ نہیں کرتے؟ کیا یہاں کا ہر طبقہ بے ایمانی نہیں کرتا؟کیا یہاں نہری پانی چوری نہیں ہوتا؟ کیا ہمارے تاجر نے بددیانتی اور سود چھوڑ دیا ہے؟ کیا ہمارے معاشرے میں لاشوں کی بے حرمتی نہیں کی گئی؟ کیا تم قصور کی زینب کو بھول گئے ہو؟ مجھ سمیت میڈیا کے بہت سے لوگ اقرار کر رہے ہیں کہ اس شعبے میں بہت سے لوگ جھوٹ بولتے ہیں، بہت سے منافقت کرتے ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جو تکبر کرتے ہیں، کچھ کی زندگیوں کا مشن محض دولت کا حصول ہے۔مولانا نے بحیثیت مجموعی بات کی، انہو ں نے تو نظامِ عدل پر بھی تنقید کی۔ اگر انہوں نے یہ کہہ دیا کہ عمران خان کو اجڑا ہوا چمن ملا ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟ جھوٹ جہاں غالب ہو وہاں اتنا کڑوا سچ واقعی جرم ہے۔ جہاں جھوٹ کا بسیرا ہو وہاں سچ بولنا خطا سے کم نہیں۔ کس طرح ایک سیاسی جماعت کے ہرکارے، کچھ سیاسی اداکار اور نام نہاد لبرلز ایک عالم دین کے پیچھے پڑ گئے۔ جس کا قصور یہ تھا کہ اس نے معاشرے سے اپیل کی کہ برائیاں چھوڑ کر اللہ کو راضی کرو۔خواتین و حضرات۔ حالیہ صورتحال پر تو ڈاکٹر خورشید رضوی کا شعر یاد آ رہا ہے کہ۔۔۔ہر جبر سے خاموش گزر آئے کہ افسوس۔۔۔۔جاں بھی ہمیں درکار تھی عزت کے علاوہ