اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار اوریا مقبول جان اپنے اپنے کالم ’’ٹھیک ایک سو سال بعد‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔روزانہ ساڑھے چار لاکھ افراد اس چوراہے سے پیدل گذرتے تھے، رات بھر روشنیوں اور رنگوں کی برسات رہا کرتی تھی، چونکہ یہ دو سڑکوں کے سنگھم پر اس طرح واقع ہے جیسے غلیل کا دو شاخہ ہوتا ہے، اس لیے اسے اپنی اہمیت کے اعتبار سے’’ دنیا کا چوراہا ‘‘ بھی کہا جاتا رہا ہے۔
نیویارک کا ٹائمز اسکوائر۔۔۔ ہر سال پانچ کروڑ سیاح اس علاقے میں آتے رہے ہیں اور اپنی اپنی دلچسپیوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ آج اس ٹائم اسکوائر کی روشنیاں اسی طرح قائم ہیں، وہ بہت بڑا نیو آئن سائن جہاں ہر چند لمحوں کے بعد ایک نیا اشتہار روشن ہو جایا کرتا تھا، آج بھی ویسے ہی ہے، لیکن سڑکیں سنسان ہیں۔ یہ وہ ”چوراہا ” ہے جہاں سے 31 دسمبر 1907 کو رات بارہ بجے موسیقی کی دھنوں، رقص و سرود اور عیش و نشاط میں مدہوش ہو کر عورتوں اور مردوں نے پہلی دفعہ نئے سال کا استقبال کیا گیا۔ یہ تقریب دراصل ایک بغاوت کی علامت تھی۔ امریکی تاریخ میں 18 اپریل 1906 میں جبسان فرانسیسکو شہر میں بہت بڑا زلزلہ آیا تو اس وقت یہ چھوٹا سا پہاڑی شہر مکمل طور پر تباہ ہوگیا اور ڈھائی لاکھ لوگ بے گھر ہوئے تھے۔ تین ہزار لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اس زلزلے کو اللہ سے ڈرنے والے عام امریکی سان فرانسسکو میں کھولے جانے والے ہم جنس پرستی کے کلب ”بلیک کیٹ بار” پر اللہ کی ناراضگی اور غصے کا اظہار سمجھتے تھے۔ ہم جنس پرستی کے آغاز کے حوالے سے نیویارک اور سان فرانسسکو جڑواں شہر تصور ہوتے تھے۔ زلزلہ ختم ہوا تو جہاں سان فرانسسکو کے لوگوں نے اللہ کو آنکھیں دکھانے کے لئے اس ہم جنس پرستی کے بار کو دوبارہ کھول دیا، وہیں نیویارک کی ہم جنس آبادی نے بھی اعلان کیا کہ ہم ان قدرتی آفات اور زلزلوں کو اپنی طرز زندگی میں رکاوٹ نہیں بننے دیں گے۔ ہم جنس پرستی کے علم بغاوت کے علاوہ خواتین کو شمع محفل بنانے کا آغاز بھی انہی دنوں ہوا۔
امریکہ میں قومی حقوق خواتین (Women suffrage) ایسوسی ایشن 1890میں قائم ہوئی اور عورت کے ہاتھ میں خاندانی معاشرت سے بغاوت کا پرچم تھما کر اسے فیشن، اشتہارات اور ملکہ حسن کے تحت کی روشنیوں میں لاکھڑا کیا گیا۔ 1906 کے آس پاس اسی عورت کی ٹانگوں کی خوبصورتی نمایاں کرنے کیلئے اس کے ملبوس کے گھیرے (Hemline) کو ٹخنوں سے چار انچ بلند کردیا گیا۔ یہ ایک آغاز تھا جس کی انتہا آج ایک صدی بعد
کی عریاں اور نیم عریاں جسمانی نمائش ہے۔ فرانس کا پیرس، برطانیہ کا لندن، اٹلی کا میلان، اسپین کا بارسلونا، امریکہ کا نیو یارک، غرض یہ تمام شہر اس بات کا اعلان کر رہے تھے کہ ہم نے اپنی زندگیوں سے اللہ اور مذہب کو دیس نکالا دے دیا ہے۔ اب ہم اپنے لیے جیسی اخلاقیات چاہیں گے مرتب کریں گے۔ ہم بچے پیدا کریں یا نہ کریں، انہیں دوران حمل قتل کر دیں، جنسی تعلقات شادی کے بغیر رکھیں،جتنی چاہیں
جسم کی نمائش کریں، یہ سارے فیصلے اب انسان کریں گے۔ یہ تھا اس جدید دنیا میں اللہ سے بغاوت کا منظم اور علمی و معاشرتی آغاز تھا۔ انسان نے اپنی اجتماعی زندگی سے اللہ اور اس کے احکامات کو دیس نکالا دے دیا۔ اس بغاوت کے عالم میں اللہ نے انسان کو جھنجھوڑنے اوراسے اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے، جنوری 1918 میں ”کورونا وائرس” ہی کے خاندان کے اولین دستے کوپوری دنیا میں
بسنے والے انسان پر حملہ آور کیا۔ اسے آج اسپنش فلو (Spanish flue) کے نام سے ایک ”خوفناک موت” کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ جیسے موجودہ کرونا وائرس، انفلوئنزا کی علامتوں والا ہے ویسے ہی سپینش فلو بھی تھا۔ اس وائرس کو H1N1 کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ یہ وائرس کچھ عرصے بعد نئی شکلیں بدلتا رہا اور کبھی برڈ فلو اور سوائن فلو کی صورت حملہ آور ہوتا رہا۔ یہ وائرس جنوری 1918 سے
دسمبر 1920 تک تین سال تک پوری دنیا پر خوفناک موت کی صورت راج کرتا رہا۔ اس وائرس سے دنیا میں آباد پچاس کروڑ لوگ متاثر ہوئے، جن میں سے پانچ کروڑ لوگ ہلاک ہو گئے۔ اس زمانے میں دنیا بھر کے اخبارات میں چھپی ہوئی تصویریں دیکھیں تو یوں لگے گا یہ 2020 ء ہے۔ آپ کو ویسے ہی ماسک پہنے ہوئے لوگ سڑکوں پر نظر آئیں گے اور ویسے ہی پورے جسم کو ڈھانپے ہوئے ڈاکٹر اور نرسوں کی
تصویریں اخبارات میں ملیں گی۔ اس موت کا مر کز و منبع پیرس تھا جو اس وقت دنیا میں فیشن، نسوانی حقوق، الحاد اور سیکولرزم کا بھی مرکز تھا۔ اسپنش فلو کا متاثرہ شخص اگر کھانستا یا چھینکتا تو ایک ساتھ پانچ لاکھ وائرس کے ذرات باہر نکلتے اور قریبی افراد پر حملہ آور ہو جاتے۔ یوں دنیا کی ایک چوتھائی آبادی اس وبا کا شکار ہوئی۔ اسپنش فلو کے دوران پانچ کروڑ اموات میں بھی اللہ نے ایک نشانی دکھائی۔ مسلمانوں کی
خلافت عثمانیہ اس وقت باقی ملکوں کی طرح جنگ عظیم اول کی لڑائی میں حصہ دار تھی اورکہا جاتا ہے کہ اسی جنگ میں فوجوں کی آمدورفت کی وجہ سے انسانوں میں اس وبا میں اضافہ ہوا تھا، لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ سب سے کم متاثر ہونے والے علاقے خلافت عثمانیہ کے تھے اور سب سے زیادہ اموات امریکہ اور یورپ کے شہروں میں ہوئیں اور اس کے بعد برطانوی ہندوستان میں۔ پانچ کروڑ لوگوں کی
اموات کو آج ایک سو سال بیت چکے ہیں۔ سائنس بہت ترقی کر چکی، روزانہ پینتالیس ہزار ایجادات ہو رہی ہیں۔ اوسط عمر بھی بڑھ گئی ہے۔ دنیا سمٹ کر ایک گاؤں بن چکی ہے لیکن آج بھی ایک سوال پوری انسانی ترقی کا منہ چڑا رہا ہے کہ، ”کیا ایک سو سال گزرنے کے بعد انسان نے اسپنش فلو یعنی H1N1 کے وائرس کا علاج ڈھونڈ لیاہے ۔”جواب ”نہیں” میں ہے۔ آج بھی اگر میرا اللہ کورونا وائرس کی بجائے
اسپنش فلو کا وائرس ہی بھیج دیتا تو انسان کی ساری ترقی ایک سو سال بعد بھی اس کے آگے بے بس نظر آتی ہے۔ اللہ رب العزت نے دسمبر 1920ء میں اپنی اس آفت کو تین سال گزرنے کے بعد ہٹا لیا۔لیکن انسان نے اس سے کوئی سبق نہ سیکھا اور بحیثیتِ مجموعی اللہ کی طرف رجوع کرنے کی بجائے اللہ کو مزید آنکھیں دکھانا شروع کر دیں۔ دنیا بھر کو قتل و غارت اور انسانی خون سے رنگین کر دیا۔ اللہ کی عطا کردہ اخلاقیات سے
بغاوت پہلے چھپی ہوئی اور محدود تھی اب وہ بام عروج پر جا پہنچی۔ میرا جسم میری مرضی کی صدا بلند ہوئی اور ایک سو سال بعد اسی طرح کے وائرس نے آج پھر انسان کو ویسے ہی بے بس، لاچار، کمزور کر دیا۔ جسم تو دور کی بات وہ اپنی مرضی سے کھل کر سانس لینے کے بھی قابل نہیں رہا۔ دنیا کے ہر بڑے شہر کے مراکز کی طرح کارپوریٹ دنیا کے دل نیویارک کے ٹائمز اسکوائر بھی ان دنوں سو سال پہلے کی
طرح سناٹے میں ہے، مگر وہاں ایک شخص دیوانہ وار بولے چلا جا رہا تھا اس کی ویڈیواس وقت پوری دنیا میں عام ہوچکی ہے۔ یہ شخص کہے جا رہا تھا، ” نیو یارک! تیرے گناہ اللہ تعالی کے غضب کو دعوت دے چکے ہیں۔ اللہ تعالی تجھ سے بہت ناراض ہیں۔ نیو یارک شہر! کیا تمہیں معلوم ہے؟ کہ آپ کے بچے ضائع کر دیے جاتے ہیں، ایک ہفتے میں چالیس بچے ضائع کیے جاتے ہیں۔ ہماری انا اور تکبر نے ہمیں تباہ کر دیا ہے۔
نیویارک! تجھے آج خدا کی آواز سنائی دے رہی ہے؟ خدا کہہ رہا ہے کہ عاجزی اختیار کرو تاکہ تمہیں عزت ملے۔ تم ہاتھوں سے گناہ کرتے اور منہ سے جھوٹ بولتے ہو۔ تمہاری زبانیں ہر ظلم کی تعریف کرتی ہیں۔ امریکہ! ہم سب سے بری قوم ہیں، ہمیں توبہ کرنی چاہیے۔ نیویارک! یہ رب کے سامنے عاجزی اور توبہ کا وقت ہے، توبہ اور عاجزی سے ہی عزت مل سکتی ہے۔ بتوں کی عبادت، سرکشی، تکبر،
حبِ مال اور مادیت سے توبہ کرو۔ میڈیا کے ذریعے نسل پرستی کی تعلیم دی جاتی ہے۔آج طے کرو کہ کس کی عبادت کرنی ہے۔ تم کمپنیوں، بزنس اور حکومت کی عبادت کرو گے یا حقیقی خدا کی عبادت کرو گے جو بندے کی پکار پر لبیک کہتا ہے۔ اب انتظار کا وقت باقی نہیں رہا۔ نیویارک! توبہ کرو، کیونکہ ہر چیز کا اختتام ہونا ہے”۔ ٹائمز اسکوائر میں یہ پکار اس لیے بلند ہورہی ہے کہ نیویارک کے اسپتال لاشوں سے پٹ چکے ہیں۔ کیا ہم بھی ایک ایسے وقت کا انتظار کر رہے ہیں کہ جب لاتعداد دیوانے لاہورکی مال روڈ، اسلام آباد کے میلوڈی چوک اور کراچی کی ایمپرس مارکیٹ میں پکارتے پھریں کہ پھر تم اس خواب غفلت سے جاگو۔