کوئٹہ(این این آئی) جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی ترجمان اور سابق پارلیمنٹرین حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ جمعہ کے روز ’’کورونا کرفیو‘‘ نہیں بلکہ ’’جمعہ کرفیو‘‘ لگایا گیا تھا، سندھ میں جمعہ کے روز عوام کو ’’لاک ڈاؤن‘‘ اور مساجد کے امام و خطباء کو ’’لاک اپ‘‘ میں بند کیا گیا۔ جمعہ کے روز جیکب آباد کے صحافیوں سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی ترجمان حافظ حسین احمد نے مزید کہا کہ
لگتا ہے کہ صوبہ سندھ میں متوازی حکومت ہے اور مراد علی شاہ کے فرمان وفاق سے نرالے ہیں، صوبہ سندھ میں جمعہ کے روز عوام کو لاک ڈاؤن میں اور امام و خطیب لاک اپ میں بند تھے، انہوں نے کہا کہ عجیب بات ہے کہ کورونا وائرس جمعہ کے روز 12 سے 3 بجے تک خطرناک رہتاہے اور اس کے بعد خطرناک نہیں رہتا کیوں کہ 3بجے کے بعد تمام اسٹورز، بازار اور عوامی بینک وغیرہ میں جو لوگوں کا رش دکھا گیا، انہوں نے کہا کہ یہ صرف مساجد کے حوالے سے 12 سے 3 بجے تک کا ”جمعہ کرفیو” تھا ”کورونا کرفیو” نہیں تھا، انہوں نے کہا کہ سندھ کے مختلف اضلاع سے یہ اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ وہاں خطباء اور علماء پر تشدد کیا گیا انہیں لاکپ اپ میں ڈال کر ان پر مقدمات بنائے گئے اگر اسٹور پر لوگوں کے ہجوم جمع ہونے اسٹور کے مالک پر مقدمہ نہیں بنتا، بینک میں ہجوم جمع ہونے پر بینک منیجر پر مقدمہ نہیں بنتا، راشن تقسیم کرنے والے ٹرک پر جمع ہونے والے سینکڑوں مجبور لوگوں کا مقدمہ امداد دینے والوں پر نہیں بنتا تو مسجد میں آنے والے مسلمانوں کا مقدمہ خطباء اور علماء پر کیوں بنایا جاتا ہے ، انہوں نے کہا کہ علماء کرام اور جمعیت علمائے اسلام موجودہ نازک حالات میں اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود تعاون کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے لیکن صوبہ سندھ میں پیپلزپارٹی یعنی اپوزیشن کی جماعت کی حکومت کے ہوتے ہوئے علماء اور مساجد کے خطباء کے ساتھ جو سلوک ہے وہ ناقابل برداشت ہے اور اگر اسے ترک نہیں کیاگیا تو اس کا شدید ردعمل ہوگا اور پورے ملک میں خصوصاً صوبہ سندھ میں اس کا رد عمل آئے گا۔