اسلام آباد(آن لائن) سینیٹ کے اجلاس میں سنیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ ایف آئی اے نے گندم اور چینی کا بحران پیدا کرنے والوں کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ حکومت کو دیدی ہے مگر بحران پیدا کرنے والوں کے خلاف اس وقت تک کاروائی عمل میں کیوں نہیں لائی جا رہی اگر حکومت کا اپنا بندہ نہ ہوتا تو رپورٹ پبلک ہو جاتی کیوں حکومت اس مافیا کے خلاف کاروائی کرنے سے تاحال گریزاں ہے ہمیں علم ہے کہ اگر پکڑ دکڑ کا سلسہ شروع ہوگا تو وزیرِ اعظم کے ارد گرد جمع لوگ ہی پکڑے جائیں گے۔
وزیراعظم اور وزراء ہر چیز پر بات کریں گے سوائے مہنگائی کے، اگر چینی اور آٹے بحران کے بحران کے ذمہ داروں کا پتہ ہیں تو نام سامنے لائیں حکومتی زمہ داران مافیا کے ساتھ مل اشیا کو پہلے برآمد کی جاتی ہے پھر درآمد کرتے ہیں ایف آئی اے کی رپورٹ حکومت سے منگوائی جائے تاکہ حقائق عوام تک پہنچ سکیں حکومتی نمائندے ہی مہنگائی اور مصنوعی بحران کے ذمہ دار ہیں ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت حکومت آئی ایم ایف کے سامنے بھی بالکل خاموش ہے سی پیک پر 56بلین ڈالر کی سرمایہ کاری ہے اس سے بڑا کوئی منصوبہ ہے ہی نہیں۔دوسری طرف ائی ایم ایف نے سی پیک کو روکنے کا کہا ہے ہمارے ملک کے ساتھ سازشین کی جا رہی ہیں انہوں نے مزید کہا کہ سی پیک ہماری لاشوں سے گزر کر بند ہو گی انہوں نے مزید کہا کہ عوام بالادستی اور فلاح کیلئے بات کرنے والوں کو دیوار سے لگانے کا عمل کافی دیر پہلے سے ہی شروع ہو گئی ہے مولانا فضل الرحمن کے خلاف آرٹیکل چھ کا مقدمہ درج کرنے کی باتیں قابل مذمت ہے انہوں نے مزید کہا ہے کہ اس ملک کے وزیر خزانہ اور مہنگائی میں اتنا فرق ہے جتنا تین سو اور سترہ روپے میں ہیں مشیر خزانہ کل کو حکومت چھوڑ کے چلے جائیں گے مشاہد اللہ خان نے مزید کہا کہ گیس اور بجلی تین تین سو مہنگی کرنے کی سفارش ہرگز برداشت نہیں کریں گے اس ملک میں مہنگائی کے خاتمے کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے انہوں نے مزید کہا کہ مولانا فضل الرحمن پر اگر غداری کا مقدمہ چلانا ہے تو 2014 میں وزیراعظم ہاوس اور پارلیمنٹ پر حملہ کرنیوالوں پر بھی غداری کا مقدمہ درج کیا جائے بیماری پر سیاست نہیں ہونی چاہئیں،یہ اچھی روایت نہیں۔