اسلام آباد(این این آئی)وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے ایک بار پھر الزام لگایا ہے کہ شریف برادران نے چوہدری شوگر ملز کو منی لانڈرنگ کیلئے استعمال کیا،چوہدری شوگر ملز بہت بڑا کارپوریٹ فراڈ ہے اس کے زیادہ تر ملزمان ملک سے باہر ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شوگر مل کیسے لگائی گئی مگر بدقسمتی سے ماضی میں ملک میں رجحان رہا کے ڈٹ کر پیسے کماؤ اور مزے کرو،
نواز شریف نے پنجاب کارپوریٹ بینک سے 105 ملین روپے کا قرض لیا، پنجاب کارپوریٹ نامی کمپنی نے بھی 65 ملین کا شریف برداران کو قرض دیا،نواز شریف نے وزیراعظم بننے کے بعد پورا قرضہ معاف کروا دیا، قاضی فیملی کے نام پر شریف خاندان نے جعلی اکاوئنٹس کھولے،خواہش ہے کرپٹ عناصر کو ہوٹل میں بند کرکے پیسے وصول کر تے۔ جمعرات کو یہاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کہا کہ چوہدری شوگر ملز ایک بہت بڑا کارپوریٹ فراڈ ہے اس کے معاملے پر گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں اس کی تحقیقات بھی چل رہی ہیں اور اس حوالے سے پوچھا جاتا ہے کہ اس میں کیا کرپشن ہوئی تو اس داستان کو میں نے 10 نکتوں میں تقسیم کردیا ہے کہ یہ اصل میں ہے کیا اور اسے کس طرح منی لانڈرنگ میں استعمال کیا گیا،شہزاد اکبر نے کہا کہ چوہدری شوگر ملز کے اثاثے ابھی ساڑھے 6 ارب کے لگ بھگ ہیں جب 1991 میں یہ قائم کی گئی تو اس وقت اسے لگانے والے خاندان کے نواز شریف کی اس وقت کل ظاہر کردہ حیثیت 13 لاکھ روپے تھی جبکہ شوگر ملز لگانے کے لیے کافی سارا سرمایہ درکار ہوتا ہے۔معاون خصوصی برائے احتساب نے کہا کہ قصہ یہاں سے شروع ہوتا ہے یہ شروع مل کیسے لگائی گئی، 90 کی دہائی میں قرضوں کا بڑا کام چلتا تھا، شوگر ملز لگانے کیلئے سب سے پہلے جو نام سامنے آیا وہ شیڈرون جرسی کمپنی کا ہے۔انہوں نے کہا کہ شیڈرون جرسی کے نام پر آف شور کمپنی بنائی گئی اور اس نے مشینری خریدنے کے لیے تقریبا ڈیڑھ کروڑ ڈالر قرض دیا
جس کی شرط یہ تھی کہ میشن خریدیں گے جس کے پیسے ادا کردئیے جائیں گے اور مشینری پاکستان آجائے گی لیکن جب کاغذی کارروائی ہوئی تو نہ پیسے پاکستان آئے نہ مشینری نواز شریف وزیراعظم بن گئے۔شہزاد اکبر نے کہا کہ اس کمپنی نے اسٹیٹ بینک سے خصوصی اجازت لی کہ مشینری تو ہم نے یہیں سے لے دے کر لگا کر شوگر مل شروع کردی ہے ہمارے پاس اس قرض کو مقامی میں تبدیل کرکے ہمیں یہاں سے پیسے اس قرض کی واپسی کے لیے دینے کی اجازت دے دیں وہ اجازت مل گئی۔
انہوں نے کہا کہ ایسا قرض جو پاکستان نہیں آیا، ایسی مشین جو پاکستان نہیں آئی اس کے عوض سود ملا کر اگلے 4 سے 5 سالوں میں وقت سے پہلے قرض ادا کردیا گیا، 2 کروڑ ڈالر پاکستان سے باہر بھیجنے کے لیے ایک بلینک چیک دے دیا گیا اور وہ پیسے اس ممد میں واپس بھی بھیجے گئے۔معاون خصوصی نے کہا کہ منی لانڈرنگ اور اثاثہ جات کا پتہ لگانے والے ورلڈ بینک کے پروگرام کی ویب سائٹ پر یہ آج تک موجود ہے کہ شیڈرون جرسی کا جو پتہ ہے ٹیمپل ہاؤس سینٹ ہیریئر جرسی آئلینڈ، پاناما کے اندر شامل دیگر 8 کمپنیوں کا بھی یہی ایڈریس ہے تو اس سے بھی نشاندہی ملتی ہے کہ شیڈرون جرسی کس قسم کی کمپنی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قوانین کے مطابق ہی تمام چیزیں کرنی ہیں، ہمارے نظام میں خامیاں ہیں جس کی وجہ سے انصاف کا نظام تاخیرکا شکار ہے۔
معاون خصوصی نے کہا کہ سب سے پہلے چیزوں کا سراغ لگانا ہوتا ہے، پھر انویسٹی گیشن اور اس کے بعد پروسیکیوشن کا عمل ہوتا ہے۔شہزاد اکبر نے کہا کہ پاناما کیس میں کتنا عرصہ سپریم کورٹ کے سامنے چلا اور اس کے بعد ڈیڑھ سال مقدمہ چلا تھا۔انہوں نے کہا کہ چوہدری شوگر ملز کیس میں زیادہ تر ملزمان ملک سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں قانون غیر حاضری میں ٹرائل کی اجازت نہیں دیتا ملزم اگر باہر چلا گیا ہے تو جب تک وہ واپس نہیں آتا ٹرائل نہیں کرسکتے۔معاون خصوصی نے کہاکہ ریکوریز کا سلسلہ تو سزا کے بعد آتا ہے اور جب سزا ہوتی ہے تو اپیل کے دو فورم زاحتساب عدالت کے معاملے میں ایک اپیل ہائی کورٹ اور دوسری سپریم کورٹ کی ہوتی ہے۔شہزاد اکبر نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ دوسرے ممالک کی طرح ایک بڑا سا ہوٹل ہوتا اس میں سب کو بند کردیں اور جب شام کو نکالیں تو پیسے لے کر نکالیں لیکن ہمیں ملک کے قوانین کا احترام کرنا ہے۔