اسلام آباد(اے این این ) سپریم کورٹ نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر پرویز مشرف کی غیر موجودگی میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم دیدیا۔پیر کوسپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے لاہور ہائیکورٹ بار کی درخواست پر پرویزمشرف کے سنگین غداری کیس کی سماعت کی۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا ملزم پرویز مشرف نے 2 مئی کو پیش ہونے کی یقین دہانی کروائی ہے؟ اگر پرویز مشرف اپنی کمٹمنٹ پر پورا نہیں اترتے تو کیا ہوگا، اس معاملے کو اوپن ہینڈڈ نہیں چھوڑا جاسکتا۔عدالت کے استفسار پر سابق صدر کے وکیل نے بتایا کہ پرویز مشرف کی اہلیہ سے رابطہ ہوا تھا، پرویز مشرف نے پیش ہونے کیلئے 13 مئی کی تاریخ دی تھی، وہ اسکائپ پر بیان ریکارڈ نہیں کرانا چاہتے، اسکائپ پر بیان ریکارڈ نہ کروانے کی وجہ بہت زیادہ دستاویزات ہیں، پرویز مشرف خود عدالت میں پیش ہوکر اپنا بیان رکارڈ کروانا چاہتے ہیں۔سابق صدر کے وکیل نے کہا کہ بطور وکیل پرویز مشرف کے 2 مئی کو پیش ہونے کی یقین دہانی نہیں کروا سکتا، ان کی صحت کا مسئلہ ہے، ان کی کیمو تھراپی چل رہی ہے۔وکیل کے دلائل پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ عدالت شق 9 کا تفصیلی جائزہ لے گی، شق 9 کے تحت ملزمان کی غیرموجودگی میں بھی عدالت ٹرائل شروع کرسکتی ہے، شق 9 کے تحت ملزم کے دفاع کیلئے ایک وکیل تعینات کرنا ہوتا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ 19 جولائی 2016 کو ٹرائل کورٹ نے کہا کہ ملزم کی غیرموجودگی میں مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا، ریاست کا کام تھا کہ اس فیصلے کو چیلنج کرتے، ریاست ہی شکایت گزار تھی۔
وفاقی حکومت نے ملزم کو خود باہر جانے دیا، وفاق نے پرویز مشرف کو واپس لانے کیلئے کچھ نہیں کیا، وفاق نے اپنے آپ کو بند گلی میں ڈال دیا۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہم کسی کی نیت پر شک نہیں کرتے، وفاق نے خود 2016 کے بعد کچھ نہیں کیا، ایسے حالات میں کیا قانونی راستہ نکل سکتا ہے، ہمیں غور کیلئے وقت دیا جائے۔سماعت کے دوران خصوصی عدالت کا 28 مارچ کا حکم نامہ پیش کیا گیا، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا پرویز مشرف نے پیش ہونے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
جس پر وکیل سابق صدر نے کہا کہ پرویز مشرف خود واپس آ کر بیان ریکارڈ کروانا چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پرویز مشرف یقین دہانی کے باوجود واپس نہ آئے تو کیا ہوگا، کمٹمنٹ کرکے واپس نہ آنے پر کچھ تو ہونا ہی چاہیے۔وکیل سابق صدر سلمان صفدر نے کہا کہ ذاتی ضمانت نہیں دے سکتا کہ پرویز مشرف واپس آئیں گے تاہم بطور وکیل مجھے ہدایات ہیں کہ وہ خود پیش ہوں گے، پرویز مشرف نے علاج کی غرض سے 13 مئی کو واپس آنے کی تاریخ دی۔
سپریم کورٹ میں مقدمہ غیر موثر ہو چکا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملزم کی عدم موجودگی میں ٹرائل غیر آئینی ہوتا ہے، ملزم جان بوجھ کر پیش نہ ہو تو اس کو فائدہ نہیں اٹھانے دے سکتے، سنگین غداری کوئی معمولی جرم نہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ٹرائل کورٹ پرویز مشرف کی واپسی تک ٹرائل آگے نہ بڑھانے کا حکم دے چکی ہے، پراسیکوشن نے بھی ٹرائل کورٹ کے 19 جولائی 2016 کے حکم کو چیلنج نہیں کیا جب کہ سابق حکومت نے مشرف کو باہر جانے سے روکنے کے لیے کارروائی نہیں کی۔
عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کا سنگین غداری کیس میں ٹرائل آگے بڑھانے سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا جو کچھ دیر بعد سنایا گیا۔سپریم کورٹ نے فیصلے میں پرویز مشرف کی غیر موجودگی میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ سابق صدر دوران ٹرائل مفرور ہوئے، ان کے دفاع کا حق ختم ہو چکا ہے، پرویز مشرف کی کسی بھی سچی، جھوٹی میڈیکل رپورٹ کو قبول نہیں کیا جائے گا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پرویز مشرف 2 مئی کو پیش نہیں ہوتے تو خصوصی عدالت استغاثہ کو سن کر فیصلہ کرے، ان کے پیش نہ ہونے پر دفاع کا حق ختم ہوجائے گا، پرویز مشرف کو سیکشن 342 کے تحت بیان ریکارڈ کرانے کی سہولت بھی نہیں ہوگی۔عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیاہے کہ پرویز مشرف 2 مئی کو پیش ہوجاتے ہیں تو تمام سہولیات میسر ہوں گی۔جب کہ چیف جسٹ پاکستان نے ریمارکس دیے کہ مفرور ملزم کے کوئی حقوق نہیں ہوتے۔