لندن(این این آئی)یوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دو مساجد پر ہونے والے حملوں کے بعد برطانیہ میں مساجد اور مدرسوں پر حملوں کی ایک نئی لہر آئی ہے،ان حملوں کو مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے جس میں برطانیہ میں چھ سو فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق گذشتہ ایک ہفتے میں ریکاڑلا کیے گئے نفرت انگیز جرائم میں 2017 میں مانچسٹر میں
ہونے والے دہشتگرد حملے کے بعد ہونے والے نفرت انگیز جرائم سے بھی زیادہ ہیں۔ نیوکاسل میں باہر اکیڈمی اسلامک سکول پر حملے میں توڑ پھوڑ کے واقعے کے بعد چھ نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔پولیس نیوکاسل اسلامک سکول پر حملے کو نفرت انگیز جرم کے طور پر دیکھ رہی ہے۔جن چھ نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ان کی عمریں چودہ سے اٹھارہ برس کیدرمیان ہیں اور ان میں دو لڑکیاں بھی شامل ہیں۔پولیس کے مطابق باہر اکیڈمی پر حملے کے دوران قران مجید کے نسخوں کو نقصان پہنچانے کے علاوہ عمارت کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچایا گیا۔ اس مسجد کو تین ماہ میں دوسری بار نقصان پہنچایا گیا ہے۔پولیس نے بائیس مارچ کو برمنگھم کی پانچ مساجد کو نقصان پہنچانے کے الزام ایک چونتیس سالہ شخص کو گرفتار کیا ہے۔پولیس کے مطابق پیری بار سے تعلق رکھنے والے ایک چونتیس سالہ شخص نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا ہے اور اسے مینٹل ہیلتھ ایکٹ کے تحت تحویل میں رکھا گیا ہے۔پولیس سمجھتی ہے کہ وہ کسی منظم گروہ کا حصہ نہیں ہے اور نہ اس کی حرکت کسی دائیں بازو کے شدت پسند گروہ کے اکسانے کا نتیجہ ہے۔پولیس نے ایسٹ لندن کی مسجد کے باہر ہتھوڑے سے ایک شخص پر ہونے والے حملے سے متعلق عوام سے معلومات کی اپیل کی ہے۔پولیس کو مطلع کیا گیا تھا کہ پندرہ مارچ کو تین افراد نے کینن سٹریٹ روڈ پر ایک نیلے رنگ کی فورڈ فیسٹا کار سے نکل کر ایک شخص پر حملہ کیا اور پھر کار میں بیٹھ کر موقع سے فرار ہو گئے۔ٹیل ماما کی ڈائریکٹر ایمان عطا نے کہا کہ نفرت انگیز جرائم میں اضافہ پریشان کن ہے۔انھوں نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ لوگ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کو جائز تصور کرتے ہیں اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہمیں ایک ایسے منافرت انگیز نظرئیے کا سامنا ہے جس کی توجہ مسلمانوں پر ہے۔پولیس نے کہا کہ گذشتہ جمعہ کو برطانیہ میں نماز جمعہ کے اوقات کے قریب پولیس کی اضافی گشت کا انتظام کیا گیا تھا۔