اسلام آباد(این این آئی)ٹیکنیکل یونیورسٹی آف ڈنمارک کے نیشنل فوڈ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے شائع کی گئی تحقیق میں پاکستان،افغانستان اور بنگلہ دیش سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں ادویات کے اثرات کم کرنے والے مہلک بیکٹیریا کی سطح میں اضافہ دیکھا گیا۔نجی ٹی وی کے مطابق محققین کا کہنا ہے کہ ان ممالک کو دو گروہوں میں شامل کیا گیا ہے، شمالی امریکا، مغربی یورپ، آسٹریلیا اور
نیوزی لینڈ میں عموماً اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس کی سطح انتہائی کم ہے جسے اچھا سمجھا جارہا ہے جبکہ ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکا میں یہ سطح بہت زیادہ ہے۔بین الاقوامی جریدے نیچر میں شائع کی گئی یہ تحقیق ٹیکنیکل یونیورسٹی آف ڈنمارک کے نیشنل فوڈ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے کی گئی تھی۔تحقیق میں بین الاقوامی ماہرین کی ٹیم نے حصہ لیا تھا جس میں آغا خان یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف پیتھولوجی اینڈ لیبارٹری میڈیسن کی ڈاکٹر رومینہ حسن اور سعدیہ شکور بھی شامل تھیں۔ورلڈ بینک سے حاصل کیے گئے ڈیٹا کی مدد سے محققین نے دنیا کے 259 ممالک میں اے ایم آر لیولز کی پیش گوئی کی اور صحت مند آبادیوں میں ان کے خلاف مزاحمت کا ایک نقشہ بھی ترتیب دیا۔محققین کے اندازوں کے مطابق نیدرلینڈز، نیوزی لینڈ اور سوئیڈن میں مزاحمت کی سطح انتہائی کم ہے جبکہ تنزانیہ، ویتنام اور نائیجیریا میں یہ سطح کافی زیادہ ہے۔اے ایم آر کی زیادہ سطح رکھنے والے دیگر ممالک میں جنوبی ایشیا میں پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش، مشرقی افریقہ میں کینیا اور یوگینڈا شامل ہیں۔تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان بیکٹیریا میں اکثر تبدیلیاں ملک میں صحت و صفائی کی صورتحال اور آبادی کی صحت کی وجہ سے آئی ہیں۔ڈاکٹر رومینہ حسن نے کہا کہ اے ایم آر کے عالمی بوجھ کو محدود کرنے کے لیے صحت، تعلیم اور صفائی کی صورتحال کو بہتر کرنیکی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ اے ایم آر میں اضافہ عام بیماریوں کے علاج میں ہماری صلاحیتوں کے لیے خطرہ بن رہا ہے، جس کی وجہ سے لوگ طویل المدتی بیماریوں،معذوری اور موت کا شکار بن رہے ہیں، ہمیں اس حوالے سے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر رومینہ حسن نے کہا کہ حکومت، پالیسی ساز اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو ملک کے لیے خصوصی اے ایم آر پلان تشکیل دینے کی ضرورت
ہے۔انہوں نے کہا کہ جو تحریری طور پر منصوبہ بندی کرچکے ہیں ہمیں اس پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر رومینہ حسن اور ڈاکٹر سعدیہ شکور اور ان کی ٹیم نے2016 میں پاکستان میں ادویات کے خلاف شدید مزاحمت کرنے والے ٹائیفائڈ کی نشان دہی کی تھی۔ڈاکٹر سعدیہ شکور نے کہا کہ اب ہم جانتے ہیں کہ فضلے کی
نکاسی کے بنیادی ڈھانچے اور پانی کے ناقص معیار کی وجہ سے پاکستان میں ادویات کے خلاف مزاحمت کرنے والے ٹائیفائیڈ بخار کو پھیلنے میں مدد ملی۔حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ماہرین کی ٹیم نے رواں برس نومبر میں آغا خان یونیورسٹی کے سالانہ ہیلتھ سائنسز ریسرچ سمپوزیم میں اینٹی مائیکروبیل ریزسٹزنس پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔