اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ نے ملک بھر کی فوجی چھاؤنیوں کے علاقوں میں قائم تعلیمی اداروں کی 3 سال میں منتقلی کا حکم دے دیا ہے، منگل کے روز سپریم کورٹ میں فوجی چھاؤنیوں کے علاقوں میں تعلیمی اداروں کی منتقلی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ، سماعت کے دوران نمائندہ کینٹ بورڈ نے موقف اپنایا کہ انیس سو سے زائد اسکولز مکمل غیر قانونی ہیں۔
عدالت نے تمام سکولوں کو فوری ریگولزائز کرنے کا حکم دے دیا۔دریں اثناء چیف جسٹس آف پاکستان نے سی این جی اسٹیشنز کو غیر قانونی لائسنس کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مشرف کیس میں ایک عبوری حکم کو ایشو بنایا گیا،حتمی حکم کے بعد عبوری احکامات غیر موثر ہو جاتے ہیں، منگل کے روز چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سی این جی اسٹیشنز کو غیر قانونی لائسنس فراہمی کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران وکیل اوگرا افتخار گیلانی نے موقف اپنایا کہ وزیر اعظم نے لائسنس جاری کرنے کے احکامات جاری کئے تھے،اوگرا کی جانب سے وزیراعظم کے احکامات پر عملدرآمد سے پہلے عدالت نے حکم امتناعی جاری کر دیا تھا،جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم کو ایسا حکم جاری کرنے کا اختیار حاصل تھا،جس کے جواب میں ڈپٹی اٹارنی جنرل نے اوگرا آرڈیننس کے تحت وفاقی حکومت پالیسی گائڈ لائن دے سکتی ہے،حکومت کی ہدایات کے تحت اوگرا سی این جی لائسنسوں کا اجراء بورڈ کے فیصلے کے مطابق ہی کرے گی، عدالت نے اوگرا کو قانون کے مطابق کام کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کو نمٹا دیا، وکیل اوگرا نے حکم امتناع کو ختم کرنے کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو یہ نہیں معلوم جب کیس حتمی طور پر نمٹا دیا جائے تو تمام عبوری احکامات ختم ہو جاتے ہیں۔
مشرف کیس میں ایک عبوری حکم کو ایشو بنا دیا گیا۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ میں بینکوں سے لیے گئے 54 ارب روپے قرض معافی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہاہے کہ قوم کا ایک ایک پیسہ وصول کریں گے قرض معاف کرانے والے رقم ادا کریں یا پھر مقدمات کے لیے تیا رہو جائیں، ہوسکتا ہے وصول کی گئی رقم ملک کا قر ض اتارنے کے لیے استعمال کی جائے۔
منگل کے روز سپریم کورٹ میں قرض معافی کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، قرض لینے والے کو پاس دو آپشن ہیں یا تو 75 فیصد واپس کر دیں یا معاملہ نیب کو بھیج دیتے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ قرضے معاف کرانے والو کے پاس پہلا آپشن مقدمات کا سامنا جبکہ دوسرا آپشن 75فیصد رقم واپس کرنے کا ہے۔قوم کا پیسہ سب کو واپس کرنا ہو گا۔بیرونی قرضے لیکر ہر شہری کو 1 لاکھ 17 ہزار کا مقروض کر دیا گیا۔
ممکن ہے واپس ملنے والی رقم بینکوں کو واپس نہ کریں اور قرض اتارنے کے لیے استعمال کریں۔ اس کام میں ججز اپنا حصہ پہلے ڈالیں گے، درخواست گزار نے موقف اختیا رکیاکہ کئی مقدمات میں بغیر کسی گارنٹی کے قرض لیے گئے۔نجی کمپنی کے وکیل نے کہاکہ عدالت کیس ٹو کیس جائزہ لیکر معاملہ بینکنگ کورٹ کو بھجوائے جبکہ نجی بینک کے وکیل نے کہاکہ قرض کی رضا کارانہ واپسی کا آپشن دیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جس کسی نے بھی آپشن لینا ہے تحریری طور پر بتا دے، کسی کے ساتھ نہ انصافی نہیں ہوگی قوم کا ایک ایک پیسہ وصول کرنا ہے، اگر ایسا نہ کر سکا تو یہاں بیٹھنے کا کیا فائدہ، کیس کی سماعت بدھ کو بھی جاری رہے گی۔