اسلام آباد (آئی این پی)سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانامہ فیصلے کیخلاف نظر ثانی درخواست کی سماعت کرنے والے فاضل بنچ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ 28 جولائی کو 2 ججز نے فیصلے میں کوئی اضافہ نہیں کیا صرف دستخط کئے تھے۔ عدالتی فیصلے پر ہر جج دستخط کرنے کا پابند ہوتا ہے‘ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ تینوں میں سے کسی جج نے نہیں کہا وہ اقلیتی فیصلے سے اختلاف کر رہے ہیں، نااہلی اور ریفرنس نیب کو بھیجنے کے
معاملے پر ہمارا نتیجہ ایک ہی تھا‘20 اپریل کو دو ججز نے فیصلہ دیا تھا مگر کیس ختم نہیں ہوا‘ پہلے فیصلہ دینے والے ججز نے اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کیا اور ایک آرڈر سے کیس کا حتمی نتیجہ آنا تھا‘نااہلی کا معاملہ جے آئی ٹی کے بعد پانچ رکن بینچ نے کرنا تھا‘تین رکنی بینچ جے آئی ٹی عملدرآمد کیلئے بنایا گیا تھا۔ عدالت میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے بھی ایک متفرق درخواست دائر کی ہے جبکہ نواز شریف کے وکیل خواجہ حادث نے دلائل دئیے ہیں کہ تین درخواستیں پانچ رکنی بینچ اور تین درخواستیں تین رکنی بینچ کیخلاف ہیں‘ قانونی نکات پر دلائل دوں گا نظرثانی کے میرٹ پر نہیں‘ دو ججز20اپریل کو اپنا فیصلہ دے چکے تھے ‘20اپریل کے بعد ججز کے بیٹھنے کا سوال نہیں تھا‘ نواز شریف کو کمپنی کا چیف ایگزیکٹو ہونے پرنااہل کیا گیا‘ عدالت نے نواز شریف کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا‘ نواز شریف کو شوکاز نوٹس دے کر وضاحت کا موقع ملنا چاہیے تھا‘نواز شریف کو فیئرٹرائل کا موقع ملنا چاہیے تھا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد ‘ جسٹس اعجاز افضل ‘جسٹس عظمت سعید ‘جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل 5 رکنی بنچ نے بدھ کو پانامہ فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستوں کی سماعت کی ۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ کچھ نظر ثانی درخواستیں پانچ اور کچھ تین رکنی بینچ کے خلاف ہیں۔واضح کردیں کہ کونسی لارجراور کونسی تین رکنی بینچ کے خلاف ہیں۔
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ تین درخواستیں پانچ رکنی بینچ اور تین درخواستیں تین رکنی بینچ کے خلاف ہیں۔ نوا ز شریف کے بچوں کے خلاف سے ایک درخواست پانچ رکنی بینچ کے خلاف ہیں۔ایک درخواست تین رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف ہے۔ایک نظر ثانی درخواست اسحاق ڈار کی جانب ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ شیخ رشید نے بھی ایک متفرق درخواست دائر کی ہے۔ شیخ رشید کی درخواست کس بارے میں ہے نہیں جانتے۔
انہوں نے شیخ رشیدسے استفسار کیا کہ شیخ رشید صاحب آپ کی درخواست کس بارے میں ہے ۔شیخ رشید نے جواب دیا کہ میری درخواست حدیبیہ پیپر سے متعلق ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ شیخ رشید کی درخواست عدالتی حکم کی مبینہ خلاف ورزی سے متعلق ہے۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ میں قانونی نکات پر دلائل دوں گا نظرثانی کے میرٹ پر نہیں۔ دو ججز20اپریل کو اپنا فیصلہ دے چکے تھے 20اپریل کے بعد ججز کے بیٹھنے کا سوال نہیں تھا۔
نواز شریف کو کمپنی کا چیف ایگزیکٹو ہونے پرنااہل کیا گیا۔عدالت نے نواز شریف کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا۔ نواز شریف کو شوکاز نوٹس دے کر وضاحت کا موقع ملنا چاہیے تھا۔نواز شریف کو فیئرٹرائل کا موقع ملنا چاہیے تھا۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 20اپریل کو فیصلے کو چیلنج نہیں کیا۔اس کا مطلب ہے 20اپریل کا فیصلہ تسلیم کیا گیا۔اس کا مطلب ہے دو ججز کے نااہلی فیصلے کو تسلیم کیا گیا۔اس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ دو ججز کا 20اپریل کا فیصلہ اقلیت کا تھا۔
آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی کا طریقہ کار مختلف ہے ۔عدالت نے نیب کو ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا۔فیصلہ دینے والے جج کو نگران بنادیا گیا۔نگران جج کی ماضی میں مثال نہیںملتی۔ٹرائل کورٹ کوآزادنہ کام کرنے کاموقع ملنا چاہیے۔عدالت نے فیصلے میں جے آئی ٹی ارکان کی تعریف کی۔ اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ تعریف توہم نے آپ کی بھی کی ہے۔ اس پرخواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ شکایت کنندہ بن گئی ہے۔ اس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ فیصلے میں جے آئی ٹی کی سفارشات کی تعریف کی ہے۔
ٹرائل کورٹ آزادی سے فیصلہ کرے گی۔اس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ دوججز نے تقاریراور بیانات پر نواز شریف کو نااہل کیا۔ دو ججز نے 28جولائی کو مختلف فیصلے پر دستخط کیے۔جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ آپ کے پاس موقع ہوگا کہ گواہان ،جے آئی ٹی ممبران سے جرح کرسکیں گے۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ 20اپریل 2017کا فیصلہ منظور ہے جواکثریتی تھا۔جس بنیاد پر نواز شریف کو نااہل کیا گیا اس پر ان کے الیکشن کمیشن کو کالعدم قرار دیا جاسکتا تھا۔
نوا زشریف کی نااہلیت نہیں بنتی تھی۔ خواجہ حارث نے جسٹس آصف سعید اور جسٹس گلزار احمد کا 20اپریل کافیصلہ پڑھ کر سنایا ۔خواجہ حارث نے کہا کہ جسٹس گلزار نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کے فیصلے سے مکمل اتفاق کیا۔اقلیتی دینے والے ججز20اپریل کے کورٹ آرڈر میں شامل نہیں تھے۔س پر خواجہ حارث نے کہا کہ 20اپریل کے فیصلے پرعمل کیلئے تین ججزپر مشتمل بینچ نے فیصلہ کیا۔ اس پرجسٹس آصف سعید نے کہا کہ نااہلی کا فیصلہ تین رکنی بینچ نے کیا تھا۔
تین رکنی بینچ نے ہی نااہلی کا فیصلہ دیا۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ واضح نہیں کیا گیا۔ کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد پانچ رکنی بینچ فیصلہ کرے گا یا تین رکنی بینچ۔ اس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ نااہلی کا معاملہ جے آئی ٹی کے بعد پانچ رکن بینچ نے کرنا تھا۔تین رکنی بینچ جے آئی ٹی عملدرآمد کیلئے بنایا گیا تھا۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد فیصلے کیلئے الگ بینچ بنا۔جسٹس سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ ججزکو سمجھا رہے ہیں کہ ان کے لکھے کا مطلب کیا تھا
۔فیصلہ لکھنے والوں کو معلوم ہے کہ انہوں نے کیا لکھا ۔ فیصلے میں نہیں لکھا کہ پہلے تین اور پھر پانچ رکنی بینچ فیصلہ دے گا۔ 28جولائی سے قبل بتادیا تھا کہ تمام ججز حتمی فیصلے پر پہنچ چکے ہیں۔ مواد مختلف ہوسکتا ہے لیکن نتیجہ ایک ہی تھا۔ دونوں فیصلوں میں نواز شریف کو نااہل کیا گیا۔ فیصلے میں اکثریت کی بنیاد پر ہی دستخط کئے جاتے ہیں۔ آپ اسے کئی مقدمات میں عدالت کی معاونت کرچکے ہیں۔آئینی ترامیم سے متعلق کیس میں بھی تمام ججز نے الگ فیصلہ لکھا تھا۔
فیصلے میں کوئی نیا کام نہیں ہوا،یہ عدالت کا معمول ہے۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی کے کام کی نگرانی کیلئے اسپیشل بینچ بنایا گیا۔ جن ججز نے جے آئی ٹی کی نگرانی کی انہوں نے فیصلہ بھی دیا۔ اس پر جسٹس عظمت سعیدنے کہا کہ امید ہے آپ یہ نہیں کہیںگے کہ ججز سپریم کورٹ کا کام نہیں کرسکتے۔جسٹس آصف سعید نے کہا کہ دو ججز نے 20اپریل کو اپنا عبوری فیصلہ دیا۔ آپ کہتے ہیں کہ دو ججز نے اقلیتی فیصلہ دیا۔ کسی جج نے فیصلے میں نہیں لکھا کہ وہ دوسرے جج سے اختلاف کرتے ہیں۔
عدالتی فیصلے میں اختلاف جے آئی ٹی پر تھا۔28جولائی کو پانچ ججوں نے حتمی فیصلہ دیا ۔20اپریل کو نااہل کرنیوالے ججز نے 28جولائی کے فیصلے میں ایک لفظ کا بھی اضافہ نہیں کیا۔ اختلاف کرنیوالے ججز فیصلے پر دستخط کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وجوہات پر اختلاف ہوسکتا ہے فیصلے پر نہیں۔ 28جولائی کو کہاتھا کہ فیصلہ تین ججز کے فیصلے کی بنیاد پر ہے۔ دونوں فیصلوں میں نواز شریف کو 62 ون ایف پا نااہل کیا گیا۔تلور کیس میں اختلاف کرنیوالے ججز نے فیصلے پر دستخط کیے تھے۔
اکیسویں ترمیم پر اختلاف کرنیوالے ججز نے فیصلے پر دستخط کیے ۔ تین ججز دوججز کو بینچ سے نکال سکتے تھے؟عملدرآمد بینچ نے پانچ رکنی بینچ کی ہدایات پر ہی چلنا تھا۔اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 20اپریل کے فیصلے میں کیس مکمل نہیں ہوا تھا۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ دو ججزپہلے ہی فیصلے پر دستخط کرچکے تھے۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ پانچوںججز کا فیصلہ ایک ہی ہے۔اختلاف صرف جے آئی ٹی پر تھا۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ 20اپریل کے فیصلے میں اختلافات اوربھی تھے۔
ججز کا اختلاف چھ مختلف باتوں پر تھا۔فیصلہ تین ججز کوکرنا چاہیے تھا۔اس پر جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ پہلے تین ججز نے فیصلہ سنایا اس کے بعد کورٹ آرڈر پڑھاگیا۔خواجہ حارث نے اختلاف کرنیوالے ججز نے28جولائی کے کورٹ آرڈر پردستخط کیے۔ اس پر جسٹس گلزار نے کہا کہ دو ججز نے اپنا 20اپریل کا فیصلہ تبدیل نہیںکیا۔ اس پر جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ تین رکنی بینچ کے فیصلے میں تبدیلی سے کورٹ آرڈر تبدیل ہوجائے گا۔اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ
آپ کی دلیل کو ماننا مشکل ہے ۔ خواجہ حارث نے جواب میں کہا کہ دو ججز فیصلہ دیکر خود بینچ سے الگ ہوگئے۔جسٹس آصف سعید نے کہا کہ پہلے میری بات سن لیں ۔ردعمل میں خواجہ حارث نے کہا کہ بات ضرور کریں مگر میری بات بھی سنیں۔جب میری باری آتی ہے تو بات پوری نہیں ہوتی۔20اپریل کے فیصلے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔عملدرآمد کیلئے الگ بینچ بنادیا جاتا توکوئی جج بینچ میں واپس نہ آتا۔ فیصلے میں سب ججز نے کہا کہ ایک گرائونڈ پر نااہل کررہے ہیں۔
اگر الگ بینچ بنتا تو وہ الگ سے اپنا فیصلہ دیتا۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ آپ کا مطلب ہے ۔20اپریل کے فیصلے میں تسلسل نہیں تھا؟دو ججز پہلے کرچکے تھے اب صرف ایک جج نااہل کرتا تو نااہلی ہوتی۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ایک مزید جج کی نااہلی کرنے سے نااہلی نہ ہوتی۔دو ججز اپنی رائے دیکر الگ ہوگئے تھے۔دو ججز جے آئی ٹی کی نگرانی کرنیوالے بینچ کا حصہ نہیں تھے۔اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ دو ججز کا فیصلہ ردی کی ٹوکری کی نظر نہیں ہوا تھا۔
خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ دوججز اپنا فیصلہ دیکر تصویرسے غائب ہوگئے۔ جسٹس آصف سعید نے کہا کہ عدالتی وقفے کے بعد کیپٹل زیڈری کمپنی پر دلائل سنیں گے۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ 28جولائی کے فیصلے میں نہیں لکھا کہ فیصلہ 2,3 کے تناسب پر ہے۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نااہلی کا فیصلہ متفقہ ہے وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں۔ نیب کو ریفرنس دائر کرنے کا حکم دینا بھی متفقہ ہے۔ نیب کے معاملے پر ججز کا اتفاق ہے۔ 20اپریل کا اختلافی فیصلہ نہیں ہوا تھا۔
اس پر خواجہ حارث نے کہا قانونی سوال یہ ہے کہ نااہلی کی وجوہات کیاتھیں؟دو ججز جے آئی ٹی رپورٹ کی کاروائی کا حصہ کبھی نہیں بنے۔20اپریل کوکورٹ آرڈر بھی 2اور3کے تناسب سے دیا گیا۔ اس پر جسٹس آصف سعید نے کہا کہ مثالیں موجود ہیں کہ کورٹ آرڈر پر تمام ججزدستخط کرتے ہیں۔ اگر کورٹ آرڈر پر وجوہات نہیںبتائی گئیں تو وہ لکھ دیتے ۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کل بھی کہا تھا اکثریتی فیصلہ تین رکنی بینچ کا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ اور سلمان اکرم نظرثانی درخواستوں کو سننے کا انتظار کررہے تھے۔ گزشتہ روز لارجربینچ کیلئے آپ انتظار کررہے تھے۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ دیکھنا یہ تھا کہ فیصلہ پانچ رکنی بینچ کا ہے یا تین کا۔ تین ججز نے نااہلی کیلئے بنیاد مختلف بتائی۔ جن دوججز نے کیس نہیں سنا تھا انہیں نظر ثانی کا نہیں کہہ رہے ہے۔اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ گزشتہ روز آپ ہی نے پانچ رکنی لارجر بینچ پر زوردیا تھا۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ آپ کے پرزور اصرار پر ہی نے بینچ میں بیٹھے ہیں ۔جسٹس اعجاز افضل نے سوال کیا کہ جو باتیں واضح ہیں انہیں بار بار کیوں دہرایا جارہا ہے؟خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت نے تعین کرنا ہے فیصلہ تین ججز کاتھا یا پانچ کا ۔ جسٹس اعجاز افضل نے سوال کیا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ تین ممبرز بینچ کے فیصلے میں کچھ غلطہ ہے۔ تو بتائیں؟ تین رکنی بینچ کا فیصلہ ہی حتمی ہے۔اس فیصلے میں ردوبدل ہی آرڈر آف کورٹ کو چیلنج کرسکتی ہے ۔
خواجہ حارث نے کہا ک آپ آج کہہ رہے ہیں۔ فیصلہ تین رکنی بینچ کا ہے۔ میرااصرار بھی یہی ہے کہ فیصلہ تین رکنی بینچ کو کرنا تھا۔عدالت نے اپنی آبزرویشن میں فیصلہ بھی کردیا ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ عدالتی آبزرویشن چیزوں کو سمجھنے کیلئے ہوتی ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ میرا کیس یہ ہے کہ اکثریتی فیصلہ دینے والے ججز کو ہی فیصلہ کرنا تھا۔جسٹس عظمت سعیدنے کہا کہ آپ کی بات نوٹ کرلی ہے اب اگلے پوائنٹ کی بات کریں۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا
کہ جن دو ججز نے کیس سنا ہی نہیں ان کے سامنے نظر ثانی پر کیا دلائل دوں؟اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ نے تین ججزکو مطمئن کرناہے۔ جسٹس گلزار نے ریمارکس دے کر اختلاف جے آئی ٹی بنانے پر کیا نااہلی پر نہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ جسٹس اعجاز افضل نے فیصلے میں فیئر ٹرائل اور گواہوں پرجرح کا ذکر کیا۔20اپریل کے فیصلے میں آرٹیکل184 /3کے تحت نااہلی کااحاطہ بھی کیا گیا۔کیپٹل ایف ذیڈری کا معاملہ 20اپریل تک عدالت کے سامنے نہیں تھا۔
اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ دوججز نے بیانات اور تقاریر پر نااہل قرار دیا۔ عوامی عہدہ رکھنے والا اثاثے چھپائے تواس کے قانونی نتائج ہوں گے۔خواجہ حارث نے کہا کہ آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی کا معیار مختلف ہے۔آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہوتی ہے۔ا س پر جسٹس اعجاز افضل نے سوال کیا کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ نااہلی تاحیات ہوگی۔خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ایک عدالتی فیصلے کے تحت نااہلی تاحیات ہوگی۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے دوررس اثرات پر اپ کو سننا پسند کرینگے ۔
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اگر کوئی اثاثہ چھپایا جائے تو الیکشن کمیشن کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ ٹرائل کورٹ میں ملزم کو موقف پیش کرنے کا موقع ملتا ہے۔ آرٹیکل 62ون ایف کے دوررس نتائج ہوتے ہیں۔ اس پر جسٹس عظمت سعید نے سوال کیا کہ ہم کس قانون کے تحت الیکشن کالعدم قرار دیتے؟خواجہ حارث نے جواب دیا کہ عدالت 73اے کے تحت الیکشن کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ آرٹیکل62 کے تحت نااہلی طریقہ کار کے مطابق ہوسکتی ہے۔ اگر طریقہ کار اختیار کیا جائے تو اس کی اپیل عدالت کے سامنے آئے گی۔
یہاں پر نااہل کرکے اپیل کے حق سے محروم کردیا گیا۔ نااہلی کے بعد اپیل کا حق نہیں دیا گیا۔خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت کو دیکھنا چاہتے تھا اثاثوں میں جس چیز کا ذکر نہیں اس کی وجہ کیا تھی۔ کیا جان بوجھ کر کسی چیز کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیا گیا۔ کیپٹل ایف زیڈری نااہلی کیلئے وجہ کافی نہیں تھی۔ اس پر جسٹس اعجاز االاحسن نے کہا کہ نواز شریف اربوں کے مالک ہیں 10ہزار درہم کی کوئی اہمیت نہیں؟غریب 10ہزار درہم چوری کرے تو جیل جاتا ہے۔ کیا امیر آدمی 10ہزار درہم چوری کرے تو آزاد گھومے؟
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ مقدمہ چوری کا نہیں ہے۔ اس پر جسٹس عظمت سعید نے سوال کیا کہ آپ کا کہنا ہے 10ہزار ردرہم تنخواہ لینا نااہلی کے لیے کافی نہیں؟خواجہ حارث نے جواب دیا کہ تنخواہ کر غیرارادی طور پر ظاہر نہ کرنا مختلف معاملہ ہے۔ اس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا تنخواہ ہاتھ میں نہیں ملازم کے اکائونٹ میں دی جاتی ہے۔ تنخواہ نہ جائے تو پرمٹ منسوخ ہوجاتا ہے۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ تنخواہ اکائونٹ میں گئی یا نہیں۔
عدالت نے شواہد کو دیکھنا ہے۔ قیاس آرائیوں پر نہیں جاسکتے ۔اس پرجسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ 10ہزار درہم تنخواہ تسلیم کی گئی۔ اس پر خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیاجے آئی ٹی نے تنخواہ تسلیم کرنے کی کوئی دستاویزدی؟اس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ کا موقف تھا کہ نواز شریف نے تنخواہ نہیں نکالی۔خواجہ حارث جواب دیا کہ نوا زشریف تنخواہ کے اہل تھے مگر انہوں نے کبھی نہیںلی۔میرے اکائونٹ میںکبھی تنخواہ نہیں آئی۔
اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قانون کہ قانون کے مطابق تنخواہ خود بخوداکائونٹ میں آجاتی ہے۔ اگر تنخواہ اکائونٹ میں نہ ائے تواقامہ منسوخ ہوجاتاہے۔ریکارڈ یہ ہے کہ اقامہ کبھی منسوخ نہیںہوا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ نہ نکالی جانے والی تنخواہ بھی اثاثہ ہے۔ اس پر خواجہ حارث نے سوال کیا کہ تنخواہ ظاہر کرنے پر کیا آرٹیکل 62ون ایف لگے گا؟اس پرجسٹس عظمت سعید نے کہا کہ بینک اکائونٹ میں پڑی رقم فزیکل قبضے میں نہیں ہوتی۔
اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں بینک اکائونٹس کا زکرکرنا پڑتاہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ انکم ٹیکس قانون میں تنخواہ کی تعریف اس قانون کی حد تک ہے۔خواجہ حارٖث نے جواب دیا کہ ڈکشنری میں اور بھی تعریفیں ہیں ۔ عدالت نے صر نواز شریف کے خلاف تعریف کا انتخاب کیا۔ اس پرجسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں بہت محتاط زبان استعمال کی گئی۔ ہم نے آئس برگ کی ٹپس سے نتیجہ اخذکیا ہے۔ یہ نہ ہومکمل آئس برگ نکال لیں اور آپ شکایت کریں
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ تنخواہ ظاہر نہ کرنا غلطی ہوسکتی ہے بدنیتی نہیں۔اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہمارے پاس ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف اپیل نہیں تھی۔ ہم نے آرٹیکل 184/3 کا اختیاراستعمال کیا۔کیپٹل ایف زیڈری کا معاملہ نیب کے پاس ہے مزیدکچھ نیں کہنا چاہتے۔ اس پرجسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بہتر ہوگا۔ کل (جمعرات) تک دلائل مکمل کرلیںجمعہ کے بعدبینچ دستیاب نہیںہوگا۔پانامہ فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواستوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔