بیجنگ(آئی این پی )ترکی نے مغربی اتحادیوں کے رویے سے دلبرداشتہ ہو کر شنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں،ترکی کی یہ کوششیں اس وقت بہتر طور پر کامیاب ہونے کا امکان ہے،چند ماہ پہلے کی نسبت شنگھائی تعاون تنظیم نے ترکی کو مبصر کا درجہ ملنے کا زیادہ امکانات پیدا ہوگئے ہیں،ترکی جون2012سے تنظیم کا مذاکراتی شراکت دار ہے۔یہ بات ترکی کے سابق وزیر خارجہ یاسر یاکس نے اپنے ایک تجزیے میں کہی ہے،شنگھائی تعاون تنظیم میں ترکی کے تعلقات کے بارے میں ترکی کے صدر طیب اردگان نے اپنے خلاف انقلاب کی ناکامی کے بعد ایک بار پھر عندیہ ظاہر کیا تھا اور تھا کہ ترکی شنگھائی فائیو میں کیوں شامل نہیں ہوسکتا۔انہوں نے دوہفتے قبل ازبکستان سے واپسی پر یہ دلیل دی تھی کہ یورپی یونین نے ترکی کے بارے میں کبھی بھی نیک خواہشات کا اظہار نہیں کیا۔
اسلئے اگر ترکی شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن بن کر زیادہ سہولت کے ساتھ اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ترکی کے سابق وزیرخارجہ نے مزید کہا کہ اگر ترکی شنگھائی تعاون تنظیم میں مبصر کا درجہ حاصل کرلیتا ہے تو اس کیلئے مکمل رکن بننا کوئی مشکل نہیں ہے،سنٹر فار یوریشین سٹڈیز کے ڈائریکٹر علیو کیلک نے کہاکہ 2013میں ترکی نے شنگھائی تعاون تنظیم میں مبصر کا رجہ حاصل کرنے کیلئے جو کوشش کی تھی ،اس میں وہ ارکان کو قائل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا کیونکہ رکن ممالک نے اس کی مخالفت کی تھی لیکن اس دفعہ صورتحال مختلف ہے،ترکی کے صدر کے ردعمل پر ممبر رکن ممالک مثبت خیالات ظاہر کریں گے۔ترکی کو 2017کیلئے انرجی کلب کا چیئرمین منتخب کرلیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ترکی اپنے مغربی اتحادیوں کی طرف سے دل شکستہ ہے،خاص طور پر یورپی یونین اور امریکہ کی طرف سے جو اس پر مجرموں کو پناہ دینے اور کردستان ورکرز پارٹی کو جنگی ہتھیار فراہم کرنے کا الزام لگاتے ہیں ۔حال ہی میں ترکی کے صدر کو ناکام بغاوت کے بعد مغرب کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیااور کہا گیا کہ انہوں نے بے شمار شہریوں کو جیلوں میں بند کیا، ہزاروں سرکاری ملازمین کو ملازمتوں سے برطرف کیا اور ذرائع ابلاغ کی آزادی کے خلاف کریک ڈاؤن