اسلام آباد(ایکسکلوژو رپورٹ) بلوچستان کے وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سب سے پہلا حملہ پولیس ٹریننگ سینٹر کے عقبی علاقے میں واقع واچ ٹاور پر کیا گیا جہاں موجود پولیں کے سیکورٹی پر مامور اہلکار نے بھرپور مقابلہ کیا اور دیر تک حملہ آوروں کو روکے رکھا۔ لیکن جب وہ مارا گیا تو حملہ آور دیوار پھلانگ کر کالج کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔حملے کی اطلاع ملتے ہی ایف سی249 پولیس اور کمانڈو وہاں پہنچ گئے اور حملہ آوروں کے خلاف کاروائی کا آغاز کیا۔بلوچستان کی وزارتِ داخلہ کے ذرائع کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد60 زیادہ ہے۔صوبائی وزیر داخلہ نے بتایا کہ حملہ آوروں میں سے دو نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیا جبکہ بقیہ ایک کو سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے مار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں کے خلاف کارروائی چار گھنٹے میں مکمل کی گئی۔
دوسری جانب آئی جی فرنٹیئر کور میجر جنرل طیب اعظم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رات 11 بج کر 10 منٹ پر ہمین اطلاع ملی کہ پولیس ٹریننگ سنٹر مین کوئی فائرنگ کی آواز آئی ہے۔ جس پر ہم نے فوراََ ایکشن لیا۔ جب ہم نے دہشتگردوں کی گفتگو سنی تو ہمیں پتہ چلا کہ 3 دہشتگرد اندر موجود ہیں اور تینوں ہی خود کش بمبار ہیں۔ آئی جی ایف سی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم نے ان دہشت گردوں کی گفتگو کا منبع معلوم کیا تو وہ افغانستان تھا۔ تینوں دہشت گرد افغانستان سے رابطے میں تھے۔ آئی جی ایف سی نے کہا کہ بلڈنگ میں داخل ہونے کا ایک ہی راستہ تھا اور وہاں سے ٹروپس نے داخل ہونا تھا۔ اسی راستے پر تینوں خود کش حملہ آور موجود تھے جن میں سے ایک خود کو دھماکے سے اڑا چکا تھا۔ جیسے ہی ہمارے جوانوں نے ٹریننگ سنٹر میں داخلے کی کوشش کی تو دہشتگردوں نے آگے سے فائرنگ شروع کر دی۔
واضح رہے کہ سینٹر کے ہاسٹل پر قبضہ اور فائرنگ سے59 زیر تربیت اہلکار شہید ،جبکہ 116 اہلکار زخمی ہوگئے۔ تین دہشت گردوں کو مار دیا گیا ، 250 سے زائد زیر تربیت اہلکاروں کو بازیاب کرالیا گیا۔علاقہ 4گھنٹے بعد کلیئر قرار دے دیا گیا۔پولیس حکام نے بتایا کہ سریاب روڈ پر واقع پولیس ٹریننگ سینٹر میں تین مسلح افراد داخل ہوئے جنہوں نے پولیس ٹریننگ سینٹر کے ہوسٹل میں مورچہ سنبھال کر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں اب تک 59 اہلکار شہید جبکہ 116 اہلکار زخمی ہوئے ہیں جنہیں طبی امداد کیلئے سول ہسپتال کوئٹہ اور بولان میڈیکل کمپلیکس منتقل کر دیا گیا ہے جہاں ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔زخمیوں میں ایف سی اور پاک فوج کے بھی اہلکار شامل ہیں ،جن میں سے 8 کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ دہشت گردوں کے حملے کی اطلاع ملنے ہی پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی اور سینٹر میں داخل ہوکر ہاسٹل اور حملہ آوروں کو گھیرے میں لے لیا۔بولان میڈیکل اسپتال میں 100 سے زائد زخمی لائے گئے ہیں جبکہ 16 ذخمیوں کو سول اسپتال کوئٹہ لایا گیا ہے۔وزیراعلیٰ بلوچستان ثنا اللہ زہری نے نجی ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کوئٹہ میں دہشت گردوں کے حملے کی انٹیلی جینس اطلاع موجود تھی، تین چار دن پہلے ہائی الرٹ بھی کیا گیا تھا۔ انھوں نیمزید بتایا کہ دہشت گردوں کو شہر میں موقع نہیں ملا تو انھوں نے مضافات میں کارروائی کی۔
حملہ آور سنٹر میں کس طرح داخل ہو ئے؟ وہ کونسا جانباز اہلکار تھا جس نے اپنی جان پر کھیل کر حملہ آوروں کو روکے رکھا اور۔۔
25
اکتوبر 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں