’فرار کی کوشش کرنے والے چاروں قیدی نانگا پربت حملے میں ملوث تھے‘

2  مارچ‬‮  2015

گلگت(نیوز ڈیسک) گلگت بلتستان پولیس کے مطابق جمعرات کو ڈسٹرکٹ جیل سے بھاگنے کی کوشش کرنے والے چاروں قیدیوں کا تعلق نانگا پربت بیس کیمپ حملہ کیس سے ہے۔گلگت پولیس نے اس سے قبل بتایا تھا کہ فرار کی کوشش کرنے والے دو قیدی نانگا پربت جبکہ دو عام مقدمات میں ملوث تھے۔پولیس کے مطابق چار قیدیوں میں سے ایک کو فرار ہونے کی کوشش کے دوران ہلاک کر دیا گیا تھا جبکہ ایک کو زخمی حالات میں گرفتار کیا گیا تاہم اس حملے میں ملوث دو قیدی تا حال گرفتار نہیں ہو سکے۔
گلگلت کے علاقے میناور کے بعد جگلوٹ اور اس کے مضافات میں قیدیوں کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن کی سربراہی کرنے والے ایس ایس پی اسحاق حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ گلگت کی ڈسٹرکٹ جیل سے فرار ہونے والے قیدیوں کے خلاف پولیس کی تحقیقات مکمل ہوچکی تھیں۔’نانگا پربت کیس کے 12 میں سے دس قیدی گلگت کی ڈسٹرکٹ جیل میں قید تھے جن میں سے چار نے فرار ہونے کی کوشش کی ان میں سے ایک مارا گیا اور ایک زخمی حالت میں پولیس کی تحویل میں ہے، دو قیدی اب بھی مطلوب ہیں جبکہ چھ اسی جیل میں قید ہیں‘۔ان کا کہنا تھا کہ یہ قیدی ٹی ٹی پی سمیت متعدد کالعدم تنظیموں سے وابستہ ہیں اور ان کا مقدمہ فوجی عدالت میں بھجوائے جانے کا امکان تھا۔نانگا پربت حملے میں ملوث دس قیدی گلگت کی ڈسٹرکٹ جیل میں قید تھے جن میں سے چار میں سے دو فرار ہونے میں کامیاب ہوئے، ایک مارا گیا اور ایک زخمی حالت میں پولیس کے پاس ہے، دو قیدی اب بھی مطلوب ہیں جبکہ چھ اسی جیل میں قید ہیں۔
ایس ایس ہی نے بتایا کہ’ہماری تحقیقات تقریباً مکمل تھیں، قوی امکان تھا کہ انھیں عدالت سزا سنائیگی، اسی لیے قیدیوں نے فوجی عدالت سے بچنے کے لیے فرار کی کوشش کی۔‘یاد رہے کہ جعرات کو ڈسٹرکٹ جیل سے فرار ہونے والے قیدیوں کو چلاس جیل سے سکیورٹی خدشات کے تحت ڈسٹرکٹ جیل منتقل کیا گیا ہے۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ میناور میں جمعے کی شب کیے جانے والے آپریشن کے دوران فرار ہونے والے دونوں قیدی اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر بھاگنے میں کامیاب ہوگئے۔سنیچر کو پولیس نے جگلوٹ اور اس میں مضافات میں قیدیوں کی موجودگی کی اطلاع ملنے پر سرچ آپریشن بھی کیا اور اس وقت بھی ٹارگٹڈ آپرشن جاری ہے تاہم کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔ایس ایس پی اسحاق حسین کا کہنا تھا کہ ڈسٹرکٹ جیل کے حکام سمیت دو مشکوک افراد کو قیدیوں کی معاونت کے شبے میں حراست میں لیا گیا ہے تاہم مزید تفصیلات سے میڈیا کو آگاہ نہیں کیا جا سکتا۔انھوں نے بتایا کہ قیدیوں کا پتہ چلانے کے لیے سرچ آپریشن کے دوران کھوجی کتوں کی مدد بھی لی جا رہی ہے۔اس سے قبل گلگت بلتستان پولیس کے سربراہ کیپٹن ریٹائرڈ ظفر اقبال نے بی بی کو بتایا تھا کہ ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا تھا کہ ان ملزمان کو لاک اپ میں رکھا ہی نہیں گیا تھا اور جس کمرے میں انھیں رکھا گیا تھا وہاں کا تالا بھی ٹھیک سے بند نہیں کیا گیا تھا جس کی وجہ سے وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔یاد رہے کہ 23 جون سنہ 2013 کو ضلع دیامر کے صدر مقام چلاس کے قریب نانگا پربت کے بیس کیمپ میں موجود دس غیر ملکی اور ایک پاکستانی سیاح کو گلگت سکاؤٹس کی وردیوں میں ملبوس تقریباً 12 مسلح حملہ آوروں نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔



کالم



میزبان اور مہمان


یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…