جب مصر فتح ہوا تو مسلمانوں نے ایک روز ایک عجیب ماجرہ دیکھا کہ مصری ایک نہایت ھی حسین و جمیل لڑکی کو سجا سنوار کر دریائے نیل میں ڈالنے لگے ہیں۔۔۔مسلمانوں نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا اور ان مصریوں کو ساتھ لیکر فاتح مصر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں پہنچ گئے اور سارا قصہ بیان کیا۔۔۔اہل مصر نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ
ھمارے ملک میں کاشتکاری کا دارو مدار دریائے نیل پر ھے۔۔۔ھمارے ھاں یہ دستور ھے کہ ھر سال ایک حسین و جمیل کنواری لڑکی دریا میں ڈالی جاتی ھے.. اگر ایسا نہ کیا جائے تو دریا خشک ھو جاتا ھے اور قحط پڑ جاتا ھے۔۔۔تاھم حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور اھل مصر کو سختی سے اس غیر انسانی ظالمانہ رسم سے روک دیا۔۔۔اللہ رب العزت کی شان کہ وہ دریا واقعی میں خشک ھونا شروع ھوگیا.. حضرت عمرو ابن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ سارا واقعہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو لکھ بھیجا۔۔۔جواب میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تحریر فرمایا کہ دین اسلام ایسی وحشیانہ و جاھلانہ رسموں کی اجازت نہیں دیتا.. تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک خط دریائے نیل کے نام لکھا.. جس کا مضمون یہ تھا۔۔۔” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔یہ خط اللہ کے بندے عمر بن خطاب(رضی اللہ تعالٰی عنہ) کی طرف سے نیل مصر کے نام ھے.. اگر تو اپنے اختیار سے جاری ھے تو بےشک جاری نہ ھولیکن اگر تو اللہ کے حکم و اختیارسے جاری ھوتا ھے تو پھر میں اللہ سے دعا کرتا ھوں کہ وہ تجھ کو جاری کردے۔۔۔ ”اس خط کے ڈالتے ھی دریائے نیل بڑھنا شروع ھوا اور پچھلے سالوں کی بہ نسبت چھ گز زیادہ بڑھا اور اس کے بعد پھر کبھی نہیں سوکھا۔۔۔!!