اسلام آباد(خصوصی رپورٹ) کشمیریوں اور بیرونی ممالک میں مقیم کشمیریوں کے اکاؤنٹس معطل کرنے کی وجہ سے سوشل میڈیاکی ویب سائٹ فیس بک کو کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کشمیریوں کیساتھ یکجہتی اور کشمیر میں ہونے والے مظالم کیخلاف آواز بلند کرنے والے اکاؤنٹس معطل کیے گئے ہیں۔ فیس بک کی جانب سے بہت سے صارفین کے اکاؤنٹس کو مکمل طور پر فیس بک سے بلاک کردیا گیا جبکہ چند صارفین کا کہنا تھا کہ انکے اکاؤنٹ 24گھنٹوں کے لیے بلاک کیا گیا ہے ۔انڈین حکام کی جانب سے موبائل کمپنیوں پر لگائی گئی پابندی کے باعث کشمیریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔8 جولائی کو برہان وانی کی ہلاکت کے بعد BSNLکے علاوہ دیگر تمام موبائل کمپنیوں کی 2Gاور3Gانٹرنیٹ سروس، وٹس ایپ اور اخبارات پرپابندی لگائی گئی ہے۔موبائل سگنل نہ ہونے کے باعث بھارتی فوجیوں سے تنازعے میں زخمی ہونے والے لوگوں کو خون عطیہ کرنے والے لوگوں سے رابطہ کرنے میں مشکل آتی ہے۔مقبوضہ کشمیر کے لوگ فیس بک اور ٹویٹر پرکشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال سے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے BSNLبراڈبینڈ کا استعمال کر رہے ہیں ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کی اتحادی حکومت نے بین الاقوامی تنقید پر 19جولائی کو بیان جاری کیا کہ ’’پرنٹنگ اور اخبارات کی اشاعت پر کوئی پابندی نہیں ہے‘‘
فیس بک کی جانب سے کشمیریوں کے علاوہ بیرونی ممالک کے ایسے لوگوں کے اکاؤنٹ بھی معطل کیے گئے ہیں جوکہ کشمیریوں سے اظہار ہمدردی کے لیے آوازبلند کررہے تھے۔اداکار حمزہ علی عباسی کی جانب سے برہان وانی سے متعلقہ پوسٹ فیس بک سے ہٹائی دی گئی اور انکا اکاؤنٹ بھی معطل کردیاتھا۔امریکی سوشلسٹ اورامریکی صدارتی امیدوار میری سکیولی کی جانب سے کشمیری صوارتحال پر غصے کا اظہار کرنے پرانکا اکاؤنٹ بھی معطل کردیا گیا جس پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ حقوق آزادی اظہار رائے کے بل کی خلاف ورزی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ فیس بک قانونی طور پر بل پر عمل کرنے کا پابند ہے۔ یہ عورتوں پر تشدد ، انسانی حقوق اور جنگی جرائم کے بارے میں پوسٹس کو سنسر نہیں کر سکتا ہے۔انکا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’کشمیر، خاص طور پر برہان وانی کے ماورائے عدالت پھانسی کی سزا کے بارے میں ان کے ساتھ ساتھ بھارتی فوج کے تشدد کی ویڈیوز کے بارے میں پوسٹس کی فیس بک کی سنسر شپ امریکی حقوق کے بل کی سنگین خلاف ورزی ہے ‘‘
فیس بک کے جاری کردہ بیانات کے مطابق دہشت گردتنظیموں یا دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرنے والے مواد کے لیے فیس بک پر کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہم ان موضوعات پر بحث کرنے کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن دہشت گرد مواد، دہشت گرد تنظیموں اور انکی پر تشدد سرگرمیوں کی مذمت کرتے ہیں۔کچھ مواد غلطی سے فیس بک سے ہٹا دیا گیا تھا لیکن اب اسے بحال کیاجا رہا ہے۔پاکستان ڈیجیٹل رائٹس کی وکیل نگہت داد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فیس بک کے تحت کشمیر تنازع کے سلسلے میں کمپنی کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں، دہشت گرد تنظیموں یا دہشت گردی کی حمایت کرنے والے مواد کے لئے فیس بک پر کوئی جگہ ہے۔ ہم ان موضوعات پر بحث کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن کسی بھی دہشت گرد مواد،دہشتگردتنظیموں یا ان کی پرتشدد سرگرمیوں کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہوسکتا ہے کہ فیس بک پر چند لوگوں کی جانب سے کشمیر کے حوالے سے خبروں کی رپورٹ کی گئی ہوگی جس کے باعث انہوں نے اس قسم کے مواد کو ہٹانے کا فیصلہ کیا ۔
’’فیس بک کا دُوہرا معیار‘‘ مشکلات کھڑی ہو گئیں پاکستان کا سخت موقف
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں