کراچی نوجوانوں میں شیشہ نوشی کا رحجان بڑھ گیا،شیشہ کیفے کونوجوان نسل فیشن اورگلیمرکے طورپراستعمال کو لائف اسٹائل کا حصہ بنا رہی ہے ۔ پاکستان میں شیشہ کیفے یا شیشہ گھروں کی تعدادمیں ہوشربااضافہ ہورہاہے جس میں نوجوان لڑکے اورلڑکیاں دیدہ دلیری کے ساتھ شیشے کااستعمال کرتے ہیں، 67.8 فیصدلوگوں نے شیشہ کوصحت کے لیے خطرناک ماننے سے ہی انکارکردیاہے،ان کے خیال میں شیشے میں استعمال ہونے والاتمباکوپانی کے ذریعے سے فلٹر ہوجاتاہے جو مضرصحت نہیں ہے، مختلف پھلوں کے ذائقوں(فلیورز) ہی منہ میں آتے ہیں ، عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق ایک گھنٹہ شیشہ پینا 2 سوسگریٹ پینے کے برابرہے۔ اُس میں40 فیصد تمباکواور60 فیصد مختلف پھلوں مالٹا، انار، کیلا، لیموں، اسٹرابری ، سیب ، شہد اور چیری سمیت دیگرپھلوں کے ذائقے شامل ہوتے ہیں، شیشے میں استعمال تمام ذائقےمضرصحت کیمیکل سے تیارکیےجاتے ہیں جوخوشنمارنگوں میں ظاہرہوتے ہیں، شیشہ کیفے میں 60 فیصد لڑکے اور 40 فیصد لڑکیاں بڑے شوق سے شیشہ پینے آتے ہیں جوایک مرتبہ شیشہ کیفے کا رُخ کرتے ہیں وہ ہمیشہ کے لیے ان کے عادی ہوجاتے ہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ اس میں کوئی ایسی چیز ضرور ملائی جاتی ہے جو اُن کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے، شیشہ پینے والوں کاکہنا تھا کہ شیشہ پینے کے بعد سکون اور اطمینان محسوس ہوتاہے، امیر طبقے کے علاوہ متوسط طبقے کے نوجوانوں کاتعلیمی اداروں سے واپسی پرشیشہ کیفے جانامعمول ہے۔شیشہ کیفے ڈیفنس ، کلفٹن ، بوٹ بیسن ، کھڈا مارکیٹ ، گلشن اقبال ، نارتھ ناظم آباد ، گلستان جوہر، گلبرگ اورشون سرکل سمیت دیگر علاقوں میں قائم ہیں تاہم مقبولیت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے مضافاتی علاقوں میں ہوٹل کے باہر بھی شیشہ گھر بن گئے ہیں،جن میں لیاری ، ماڑی پور، ہاکس بے ، کورنگی اور ملیر کے علاقے شامل ہیں ،ہائی ویز پرکھانے کی پینے کی ہوٹلوں میں بھی شیشہ فراہم کیاجاتاہے ، پہلے سو سے2 سو روپے آدھاگھنٹہ شیشہ پینے کے لیے وصول کیے جاتے تھے لیکن اب آدھا گھنٹہ شیشہ پینے کے لیے 5سوسے 15سو روپے وصول کیے جاتے ہیں،شیشہ کیفے میں نوجوان شراب اور چرس سمیت دیگر منشیات کا بھی استعمال کرتے ہیں ، نوجوان نسل میں خصوصًا لڑکیوں میں شیشے کے استعمال کا رحجان تشویشناک حد تک بڑھ رہا ہے جوباعث تشویش ہے، خواتین گھریلواورخاندانی مسائل ، تھکن،پریشانی،احساس محرومی اورذہنی دباؤسے نجات کے لیے منشیات کا سہارا لیتی ہیں،طبی ماہرین کے مطابق شیشہ کے استعمال سے گلے، پھپھپڑے،دل،گردےاوکھانے کی نالی پرمضراثرات مرتب ہوتے ہیں جو بعدازاں پیچیدہ امراض میں تبدیل ہوجاتے ہیں ، شہر بھر میں شیشہ گھروں کے قیام میں بھی مبینہ طور پر پولیس کا بھی اہم کردار رہا ہے ۔ حکومت شیشہ گھروں کے خلاف کارروائی میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی اور بدقسمتی سے شیشہ کے استعمال کرنے والوں میں 15 سے18 سال تک کی عمر والے نوجوان شامل ہیں، پوش علاقوں کے نوجوان فیشن کے طور پرشیشہ کیفے دیدہ دلیری سے جاتے ہیں ، شیشہ کیفے کی مقبولیت انٹر نیٹ کیفے اور اسنوکر کلب سے بھی زیادہ ہے ۔ ماہر سماجیات رانا آصف حبیب کے مطابق نوجوان ذہنی سکون کے لیے شیشہ کیفے کا رُخ کرتے ہیں ، شیشہ ایک خاموش قاتل ہے جو آہستہ آہستہ اپنا اثر دکھاتا ہے ، کھیلوں کے لیے میدانون کی کمی کے ساتھ ساتھ نوجوانوںکو تفریح کے مواقع میسر نہیں جس کے باعث نوجوان نسل کا شیشے کیفے کی جانب گامزن ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ شیشہ ایک ماڈرن حقے کا نام ہے اِس کا استعمال عرب ثقافت سے ہمارے یہاں آیاہے،عرب ممالک میں مرد وعورتیں شوق سے شیشہ پیتے ہیں،اسکی بنیاد شیشےسےبنی ہوتی ہےاس لیےاسے شیشہ کہاجاتاہے،عرب ممالک میں شیشہ کو ’’ارجلا یا نرجلا ‘‘ کہا جاتا ہےعرب ممالک میں پرانے زمانےمیں شیشہ کی بنیاد ناریل تھی اور ناریل کوفارسی زبان میں ’’نرجلا ‘‘کہا جاتا ہے۔