پشاور (نیوز ڈیسک) سانحہ باچاخان یونیورسٹی کی تحقیقات کے لئے قائم اعلیٰ سطح تحقیقاتی کمیٹی نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فضل کریم مروت اور سکیورٹی انچارج اشفاق احمد کوملازمت سے ہٹانے کی سفارش کر دی ہے۔ کمشنر پشاور، آر پی او ملتان اور محکمہ ہائیرایجوکیشن کے سپیشل سیکرٹری پر مشتمل 3 رکنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ سفارشات کے ساتھ صوبائی حکومت کو جمع کروا دی ہے۔ رپورٹ (جس کی کاپی ”دی نیوز“ کے پاس موجود ہے) میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ قانون کے مطابق وائس چانسلر کو ہٹانے کیلئے چانسلر سے درخواست کی جائے جبکہ سکیورٹی انچارج کو ملازمت سے برخاست کر دینا چاہیے۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ سکیورٹی نے لئے سابق فوجیوں کو رکھا جائے اور ان کا انچارج بھی ریٹائرڈ فوجی افسر ہونا چاہیے۔ اعلیٰ سطح تحقیقا تی کمیٹی صوبائی اپیکس کمیٹی کے اجلاس جس میں وزیراعلیٰ ، گورنر خیبر پختونخوا اور کور کمانڈر پشاور نے شرکت کی میں قائم کی گئی تھی۔ ذرائع کے مطابق کمیٹی نے وائس چانسلر ڈاکٹر فضل الرحیم مروت، ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن، رجسٹرار، سکیورٹی گارڈ اور دیگر متعلقہ افراد کے بیانات ریکارڈ کئے ہیں۔ کمیٹی نے یونیورسٹی کے لئے اسلحہ کی خریداری اور سکیورٹی سٹاف کی باقاعدہ ٹریننگ کی بھی سفارش کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کنٹرول روم قائم کرے اور سی سی ٹی وی کیمروں کا میکنزم بھی نصب کرے۔ جنگ رپورٹر جاوید عزیز خان کے مطابق رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جس دن سانحہ ہوا سکیورٹی گارڈز کے پاس47ہتھیار تھے۔ جن میں 5 کلاشنکوفیں، 30 شارٹ گن اور 6 رائفلز تھیں جبکہ گارڈز کے پاس 1953 راﺅنڈ تھے۔ حملہ کے وقت یونیورسٹی میں 19گارڈز کی ڈیوٹی تھی جن میں سے4 چھٹی پر تھے جبکہ فون ریکارڈ کے مطابق 4دیگر گارڈ بھی ڈیوٹی سے غائب تھے جن میں سکیورٹی انچارج بھی شامل ہے ، یعنی تقریباً نصف گارڈ ڈیوٹی پر حاضر تھے۔تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ باچا خان کی 28ویں برسی پر منعقدہ مشاعرہ کے حوالے سے یونیورسٹی اور ضلعی انتظامیہ کے درمیان کوئی کوارڈی نیشن نہیں تھی۔فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ میں وائس چانسلر کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یونیورسٹی کے سربراہ کی حیثیت سے وائس چانسلر نے چانسلر کی طرف سے ملنے والی ہدایات کے باوجود سنڈیکٹ کا اجلاس نہیں بلایا اور سکیورٹی کے حوالے سے ضروری اقدامات نہیں کئے جبکہ ڈائریکٹر سکیورٹی کا چارج ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر کو دیا ہوا تھا۔وائس چانسلر نے سکیورٹی کے بارے میں تربیت اور قابلیت کے باوجود اشفاق احمد کو سکیورٹی گارڈز کے انچارج کی ذمہ داریاں سونپ رکھی تھیں۔کمیٹی کی رپور ٹ میں مزید کہا ہے کہ سنگین صورتحال اور پولیس کی طرف سے ایڈوائزری جاری ہونے کے باوجود وائس چانسلر نے سکیورٹی کے انتظامات نہیں کئے۔کمیٹی نے اپنی رپور ٹ میںسکیورٹی انچارج اشفاق احمد کے بارے میں کہا ہے کہ سکیورٹی کے حوالے سے اس کی کوئی تربیت نہیں ہے اور اس نے سانحہ کے دن سکیورٹی گارڈز کی حاضری سے متعلق جو ریکارڈ پیش کیا وہ بعد میں غلط ثابت ہوا۔اشفاق احمد 2سال کے بعد واقعہ میں 10دن قبل ہی ڈیوٹی پر ا?یا اور سانحہ کے دن ڈیوٹی سے غائب تھا۔ اور دعویٰ کرتا ہے کہ اس دن میں ا?ئی جی پولیس کو خط دینے گیا تھا۔کمیٹی نے کہا ہے کہ سکیورٹی میں ناکامی کی مکمل ذمہ داری انچارج سکیورٹی پر عائد ہوتی ہے۔ڈائریکٹر ایڈ منسٹریٹر ڈاکٹر شکیل کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ایڈمنسٹریشن کے حوالے سے ان کا کوئی تجربہ نہیں اور انہیں ایڈیشنل چارج دیاگیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ یونیورسٹی کے ایڈمنسٹریشن بلاک میں طلبہ کے ساتھ موجود رہے وہ پولیس کے ساتھ رابطے میں رہے اور ایک گارڈ کی مدد سے طلبہ کو وہ دہشت گردوں سے بچانے میں کامیاب رہے۔ رپورٹ کہی ہے کہ ڈائریکٹر شکیل صرف استاد ہیں اور اس دن سکیورٹی ناکامی کے حوالے سے یہ قصور وار نہیں۔ رپورٹ کے مطابق یونیو ر سٹی رجسٹرار نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے پولیس کو فوراً اور بار بار کال کی لیکن وہ بروقت نہ پہنچی۔ ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن نے بھی پولیس کے حوالے سے یہی بیان دیا ہے۔ ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن نے اپنے بیان میں کہا کہ پولیس کو ایس او ایس الرٹ سسٹم کے ذریعے اطلاع دی جو ایک گھنٹے بعد پہنچی اور ا?گے جانے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ فوج کی ذمہ داری ہے۔ فوج کے ا?نے تک یونیورسٹی کے سکیورٹی گارڈ دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ وائس چانسلر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ میں نے واقعہ کے بارے میں یونیورسٹی ا?تے ہوئے سنا اور میں سیدھا نشاط پولیس سٹیشن گیا اور وہاں حملے کے بارے میں اطلاع دی۔ رپورٹ کے مطابق وائس چانسلر نے مزید کہا کہ فوج اور پولیس کے موقع پر پہنچنے سے تقریباً 40 سے 50منٹ یونیورسٹی کے سکیورٹی گارڈز نے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا۔