نیو یارک۔۔۔۔اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسرائیل سے تین برس میں فلسطینی علاقے خالی کرنے کے مطالبے پر مبنی قرارداد مسترد کر دی ہے۔15 رکنی سلامتی کونسل میں یہ قرارداد اردن کی جانب سے پیش کی گئی اور اس سے قبل اس پر 22 عرب ممالک اور فلسطینی انتظامیہ نے منظور کیا تھا۔اسرائیل اور فلسطین کا تنازع کیا ہے۔منگل کو پیش کی جانے والی قرارداد کو منظوری کے لیے نو ووٹ درکار تھے مگر اس کی حمایت میں آٹھ ووٹ ہی پڑ سکے۔قرارداد کی حمایت کرنے والے ممالک میں فرانس، چین، روس، ارجنٹائن، چاڈ، چلی، اردن اور لگزمبرگ شامل تھے۔امریکہ اور آسٹریلیا نے اس قرارداد کی مخالفت کی جبکہ پانچ ممالک برطانیہ، لیتھوینیا، نائجیریا، جمہوریہ کوریا اور روانڈا نے ووٹنگ میں حصہ ہی نہیں لیا۔قرارداد میں مشرقی یروشلم کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالخلافہ قرار دیا گیا تھا۔اگر یہ قرارداد منظوری کے لیے درکار نو ووٹ حاصل کر بھی لیتی تب بھی امریکہ کی مخالفت کی وجہ سے اس کی منظوری ناممکن تھی۔امریکہ کو سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے ویٹو کی طاقت حاصل ہے اور صرف اس کی مخالفت پر بھی سلامتی کونسل اس قرارداد کو منظور نہیں کر سکتی تھی۔اسرائیل کے قریبی حلیف ہے امریکہ نے قرارداد پر رائے شماری سے قبل ہی کہا تھا کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن معاہدہ چاہتا ہے لیکن وہ کسی لاگو شدہ نظام اولاقات کا حامی نہیں۔ادھر اسرائیل نے اس قرارداد کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک ’شعبدہ‘ قرار دیا ہے۔اس قرارداد میں اسرائیل سے حتمی امن منصوبے پر بات چیت کے لیے ایک سال کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی تھی اور اسرائیل سے کہا گیا تھا کہ وہ 2017 کے اختتام پر مقبوضہ فلسطینی علاقے خالی کر دے۔قرارداد میں نئے مذاکرات ان علاقائی خطوط کی بنیاد پر کرنے کی بات کی گئی تھی جو اسرائیل کے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں غربِ اردن، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی پر قبضے سے قبل موجود تھے۔