شمالی کوریا نے اپنے رہنما کم جون ان کے قتل کے افسانوی پلاٹ پر مبنی ہولی وڈ فلم دی انٹرویو کی ریلیز پر امریکی صدر باراک اوباما کی مذمت کی ہے۔
شمالی کوریا کی قومی دفاعی کمیشن (این ڈی سی) نے امریکا پر ملکی انٹرنیٹ مفلوج کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے امریکی صدر کو “عاقبت نااندیش” قرار دیا ہے۔
یہ متنازع فلم کچھ امریکی سینماﺅں اور آن لائن ریلیز کی گئی جبکہ سینکڑوں سینماﺅں نے بھی آگے بڑھ کر اسے پردہ اسکرین پر دکھانے کی پیشکش کی تاہم بڑی تعداد ایسے سینماﺅں کی تھی جنھوں نے اسے اپنی اسکرین پر نہ دکھانے کا فیصلہ کیا۔
اس فلم میں شمالی کورین صدر کو ایک بے رحم اور مسخرے کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور کم جونگ ان کو اس فلم سے جن مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر یہ یو ایس بی کے ذریعے شمالی کوریا اسمگل ہوگئی تو یہ عوامی رائے پر کافی اثر انداز ہوسکتی ہے۔
شمالی کورین کمیشن کے جاری کردہ بیان میں اس فلم کی ریلیز پر امریکا کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ ان کے سپریم لیڈر کے وقار کو نقصان پہنچانے اور دہشت گردی کو فروغ دینے کی کوشش ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی صدر مرکزی ذمہ دار ہیں کیونکہ انہوں نے سونی پکچرز کو اس فلم کی ریلیز کے لیے مجبور کیا گیا اور وہ ہمیشہ ہی ایسے اقدامات کرتے ہیں جیسے بندر کسی برساتی جنگلات میں حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں۔
یہ پہلی بار ہے کہ کوئی بھی فلم سینما گھروں اور آن لائن پر ایک ساتھ دکھائی جا رہی ہے۔
سونی پکچرز نے شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کے بارے میں بنائی جانے والی اس مزاحیہ فلم کو سائبر حملے کے بعد ملنے والی دھمکیوں کے پیش نظر ریلیز نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
امریکہ نے ان حملوں کا الزام شمالی کوریا پر عائد کیا تھا جس کی شمالی کوریا نے تردید کی تھی۔
سونی پکچرز نے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے اس کامیڈی فلم کو کرسمس کے دن ریلیز کیا۔
امریکی صدر سمیت ناقدین کی بڑی تعداد نے انتباہ کیا تھا کہ اگر فلم پر پابندی لگائی گئی تو اظہار رائے کی آزادی خطرے کی زد میں آجائے گی۔
سونی پکچرز پر کامیاب حملہ کرنے والے ہیکروں کے گروپ نے دھمکی دی تھی جو سینما گھر بھی اس فلم کی نمائش کریں گے انھیں اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔