لندن(نیوزڈیسک)برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے اتحادی امریکا کے مو¿قف کے برعکس کہا ہے کہ شامی صدر بشارالاسد عبوری حکومت کا حصہ ہوسکتے ہیں۔ڈیوڈ کیمرون نے سکائی نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ بشارالاسد عبوری حکومت کا حصہ ہوسکتے ہیں لیکن وہ ایک معاملے میں بڑے واضح ہیں کہ شامی صدر ملک کے مستقبل کا تادیر حصہ نہیں ہوسکتے ہیں۔قبل ازیں سنڈے ٹیلی گراف نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ وزیراعظم کیمرون شام میں قومی اتحاد کی حکومت کے قیام کی صورت میں بشارالاسد کو مختصر عرصے کے لیے اقتدار میں رکھنے کے حق میں ہیں۔اخبار نے حکومت کے ایک بے نامی ذریعے کے حوالے سے لکھا ہے کہ ڈیوڈ کیمرون کا موقف یہ ہے کہ ایسے شام کا کوئی طویل المیعاد ،مستحکم اور پ±رامن مستقبل نہیں ہے کہ جب شامی عوام اپنے گھروں کو لوٹیں تو بشارالاسد ان کا لیڈر ہو۔جب اس ذریعے سے سوال کیا گیا کہ کیا بشارالاسد عبوری دور میں اقتدار میں رہ سکتے ہیں تو اس کا کہنا تھا کہ ڈیوڈ کیمرون فوری طور پر ان کی اقتدار سے دستبرداری کا مطالبہ نہیں کریں گے کیونکہ ان کی ہمیشہ سے یہ تجویز رہی ہے کہ سیاسی انتقال اقتدار ہونا چاہیے۔مغربی ممالک نے شام میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے اپنی کوششیں تیز کردی ہیں اور اب امریکا کے اتحادی شامی صدر بشارالاسد کو عبوری دور کے لیے حکومت کا حصہ بنانے کے حق میں نظر آتے ہیں جبکہ دوسری جانب روس نے اپنے دیرینہ اتحادی کی فوجی امداد میں اضافہ کردیا ہے۔جرمن چانسلر اینجیلا مرکل نے بھی گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ بشارالاسد سمیت بہت سے کرداروں کے ساتھ بحران کے حل کے لیے بات چیت کی جانی چاہیے۔تاہم جرمن حکام نے اس بات کی تردید کی ہے کہ چانسلر مرکل سپین یا آسٹریا کے موقف کی حمایت کررہی ہیں۔ان دونوں ممالک کا کہنا ہے کہ شامی بحران کے عبوری حل کے طور پر بشارالاسد کا ممکنہ کردار ہوسکتا ہے اور اس کے حل کے تحت شام داعش کے خلاف جنگ میں بین الاقوامی فوج کا حصہ بھی ہو سکتاہے۔