خطہ تنازعہ کا متحمل نہیں ہوسکتا، ایران کے ساتھ فوجی تنازعہ تباہ کن ہو گا،پاکستان کس کام کے لئے تیار ہے، وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو اہم پیغام دیدیا

16  جنوری‬‮  2020

اسلام آباد (این این آئی)وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ خطہ تنازعہ کا متحمل نہیں ہوسکتا، ایران کے ساتھ فوجی تنازعہ تباہ کن ہو گا، بھارت میں آر ایس ایس کی بنیاد مسلمانوں اور مسیحیوں سمیت دیگر اقلیتوں سے نفرت ہی ہے،بھارت ایٹمی ہتھیاروں کا حامل ایک ایسا ملک ہے، جسے انتہا پسند چلا رہے ہیں، کشمیر پانچ ماہ سے مسلسل محاصرے کی حالت میں ہے،پاکستان کسی بھی ریفرنڈم یا استصواب رائے کیلئے تیار ہے،

بھارت کا شہریت ترمیمی قانون واضح طور پر اقلیتوں کے خلاف ہے، تمام امور پر دنیا کے خاموش رہنے کی وجہ زیادہ تر تجارتی مفادات ہیں،امید ہے امریکا اور طالبان کے مابین افغان عمل امن مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے،افغانستان میں قیام امن سے وسطی ایشیا میں تجارت کے نئے امکانات پیدا ہوں گے۔ جمعرات کو جرمن ریڈیو کو دیئے گئے انٹرویو میں وزیراعظم نے اس سوال ”آپ کا کام شاید دنیا کے مشکل ترین فرائض میں سے ایک ہے،پاکستان کو امریکا اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن رکھنا ہے،بیجنگ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے لیکن اس وجہ سے اسلام آباد کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات دباؤ میں ہیں، پاکستان کی سرحدیں افغانستان اور ایران جیسے ممالک سے بھی ملتی ہیں، جہاں تنازعات کی کوئی کمی نہیں ہے۔ آپ اس صورت حال کا سامنا کیسے کر رہے ہیں؟“ کے جواب میں کہاکہ میں سیاست میں اس لیے آیا تھا کہ میں نے محسوس کیا تھا کہ پاکستان کے پاس بہت زیادہ صلاحیتیں اور امکانات ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جب میں بڑا ہو رہا تھا تو پاکستانی معیشت ایشیا میں سب سے زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کر رہی تھی اور یہی بات 1960ء کے عشرے میں ترقی کے لیے ایک ماڈل ثابت ہوئی تھی،پھر ہم راستے سے بھٹک گئے۔ میرا سیاست میں آنے کا مقصد پاکستان کی انہی صلاحیتوں کا دوبارہ حصول تھا۔انہوں نے کہاکہ یہ درست ہے کہ ہم مشکل ہمسائیگی والے ماحول میں رہتے ہیں اور ہمیں اپنے اقدامات کو متوازن رکھنا ہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ مثال کے طور پر سعودی عرب پاکستان کے عظیم ترین دوستوں میں سے ایک ہے اور ہمیشہ ہمارے ساتھ رہا ہے،پھر ایران ہے، جس کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ اچھے رہے ہیں،ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ان دونوں ممالک کے مابین تعلقات خراب نہ ہوں،یہ ایک ایسا خطہ ہے، جو ایک اور تنازعے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔انہوں نے کہاکہ پھر ہمارا ہمسایہ ملک افغانستان بھی ہے،پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنی بہترین کوششیں کر رہا ہے،

ایک ایسا ملک جس نے گزشتہ 40 برسوں میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ طالبان، امریکا اور افغان حکومت مل کر قیام امن کی منزل حاصل کر لیں۔ایک سوال پر وزیر اعظم نے کہاکہ میں وہ پہلا لیڈر تھا جس نے دنیا کو اس بارے میں خبردار کیا تھا کہ بھارت میں کیا ہو رہا ہے؟ بھارت پر ایک ایسی خاص انتہا پسندانہ نظریاتی سوچ غالب آ چکی ہے، جو ‘ہندتوا کہلاتی ہے۔ یہ آر ایس ایس (راشٹریہ سوایم سویک سنگھ) کی نظریاتی سوچ ہے۔ آر ایس ایس ایک تنظیم کے طور پر 1925ء میں قائم کی گئی تھی،

جرمن نازیوں سے متاثر ہو کر اور اس کے بانی نسلی برتری پر یقین رکھتے تھے۔ اسی طرح جیسے نازی آئیڈیالوجی کی بنیاد اقلیتوں سے نفرت پر رکھی گئی تھی، آر ایس ایس کی بنیاد بھی مسلمانوں اور مسیحیوں سمیت دیگر اقلیتوں سے نفرت ہی ہے،یہ بھارت کے لیے ایک المیہ ہے اور اس کے ہمسایوں کے لیے بھی، کہ اس ملک پر آر ایس ایس نے قبضہ کر لیا ہے، وہی آر ایس ایس جس نے عظیم مہاتما گاندھی کو قتل کروایا تھا،بھارت ایٹمی ہتھیاروں کا حامل ایک ایسا ملک ہے، جسے انتہا پسند چلا رہے ہیں۔ کشمیر گزشتہ پانچ ماہ سے مسلسل محاصرے کی حالت میں ہے۔

اس موقع پر میزبان نے سوال کیاکہ ”کیا آپ وزیر اعظم مودی کے ساتھ ان معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہیں؟۔ وزیر اعظم نے جواب دیا کہ جب میں وزیر اعظم بنا تو میں نے بھارتی حکومت اور وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ بات چیت کی کوشش کی،میں نے اپنی پہلی ہی تقریر میں کہہ دیا تھا کہ اگر بھارت ایک قدم آگے بڑھے گا تو ہم اپنے باہمی اختلافات دور کرنے کے لیے دو قدم آگے بڑھیں گے لیکن جلد ہی میں نے یہ دیکھ لیا کہ بھارت نے آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی کی وجہ سے اس پر کوئی بہت اچھا ردعمل ظاہر نہیں کیا، یہ بات اس وقت بھی پوری طرح ظاہر ہو گئی تھی، جب بھارت نے یکطرفہ طور پر کشمیر کو اپنے ریاستی علاقے میں ضم کر لیا،

حالانکہ اقوام متحدہ کی کئی قراردادوں کے مطابق بھی یہ خطہ پاکستان اور بھارت کے مابین ایک متنازعہ علاقہ ہے۔آزاد کشمیر کے حوالے سے وزیر اعظم نے کہاکہ ہم دنیا کے کسی بھی حصے سے کسی کو بھی پاکستان آنے کی دعوت دیتے ہیں،آئیے، پہلے آزاد کشمیر کا دورہ کیجیے اور پھر مقبوضہ کشمیر کا دورہ کریں اور خود ہی فیصلہ کر لیجیے۔عمران خان نے کہاکہ آزاد کشمیر میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوتے ہیں اور عوام ہی وہاں کی حکومت منتخب کرتے ہیں،کسی بھی دوسری انتظامیہ کی طرح، ان کی بھی مشکلات ہیں، ہماری طرف سے دنیا بھر سے مبصرین کو بلا لیجیے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ مبصرین کشمیر کے پاکستانی حصے میں جا سکتے ہیں

مگر انہیں مقبوضہ کشمیر میں جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔وزیر اعظم نے کہاکہ کشمیر کے لوگوں کو ہی یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ کیا چاہتے ہیں،پاکستان کسی بھی ریفرنڈم یا استصواب رائے کے لیے تیار ہے،یہ فیصلہ کشمیریوں کو خود کرنا چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزادی۔اس سوال پرکہ ”کیا آپ یہ سوچتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری کشمیر کے تنازعے پر بہت کم توجہ دے رہی ہے؟“ جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہاکہ افسوس لیکن ایسا ہی ہو رہا ہے۔ آپ ہی سوچیے کہ ہانگ کانگ میں احتجاجی مظاہروں کو میڈیا کتنی توجہ دے رہا ہے، کشمیر کا المیہ تو اس سے بہت ہی بڑا ہے۔عمران خان کہ بدقسمتی سے مغربی ممالک کے لیے ان کے

تجارتی مفادات زیادہ اہم ہیں،بھارت ایک بڑی منڈی ہے اور یہی وجہ ہے کہ 80 لاکھ کشمیریوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ بھارت میں مجموعی طور پر اقلیتوں کے ساتھ بھی، اس پر بین الاقوامی برادری کے رویے میں قدرے سرد مہری پائی جاتی ہے۔ بھارت کا شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) واضح طور پر اقلیتوں کے خلاف ہے، خاص طور پر بھارت کے 200 ملین مسلمانوں کے خلاف۔ ان تمام امور پر دنیا کے خاموش رہنے کی وجہ زیادہ تر تجارتی مفادات ہیں اس کے علاوہ اسٹریٹیجک حوالے سے بھارت کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ چین کی موازن قوت بنے، تو اس لیے بھی ان دونوں تنازعات کے بارے میں عالمی رویے بالکل مختلف ہیں۔وزیر اعظم سے سوال کیا گیا کہ

”اس بارے میں جرمنی اور یورپی یونین کیا کر سکتے ہیں؟“ وزیر اعظم نے جواب دیا کہ میری رائے میں جرمنی بہت بڑا کردار ادا کر سکتا ہے،جرمنی یورپ کا مضبوط ترین ملک ہے اور یورپی یونین کا بہت بڑا رکن ملک بھی۔ جب میں نے چانسلر میرکل سے بات کی تھی، تو میں نے انہیں ان امور کی وضاحت کی تھی، یہ کہ بھارت میں کیا ہو رہا ہے اور انہوں نے دراصل اس بارے میں ایک بیان بھی دیا تھا، جب وہ بھارت کے دورے پر تھیں۔اس موقع پر میزبان نے سوال کیا کہ ”آپ کشمیر اور بھارت میں انسانی حقوق کی صورت حال پر بہت تنقید کرتے ہیں لیکن جب چین اور ایغور مسلمانوں کی بات ہوتی ہے، تو آپ اتنے بلند آواز نہیں ہوتے۔ ایسا کیوں ہے؟ میں دیکھ رہی ہوں، کہ آپ خود کو مسلم دنیا کے مختلف ممالک کے مابین پل کے طور پر پیش کرنا پسند کرتے ہیں،

تو پھر آپ ایغور باشندوں پر جبر کے حوالے سے چین کے بارے میں زیادہ کھل کر بات کیوں نہیں کرتے؟“ وزیر اعظم نے جواب دیاکہ زیادہ تر دو وجوہات کی بنا پر۔ پہلی یہ کہ جو کچھ بھارت میں ہو رہا ہے، اس کا موازنہ اس کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا جو کہا جاتا ہے کہ چین میں ایغور باشندوں کے ساتھ ہو رہا ہے، دوسری بات یہ کہ چین ہمیشہ ہی ہمارا بہت قریبی دوست رہا ہے، چین نے ان انتہائی مشکل حالات میں بھی ہماری بہت مدد کی، جب میری حکومت کو گزشتہ حکومت سے ورثے میں ایک پورا اقتصادی بحران ملا تھا،اس لیے ہم چین کے ساتھ مختلف امور پر نجی سطح پر تو بات کرتے ہیں لیکن عوامی سطح پر نہیں، کیونکہ یہ حساس معاملات ہیں۔افغان امن مذاکرات کے حوالے سے سوال پر وزیر اعظم نے کہاکہ میرے خیال میں ایک فائر بندی کی طرف پیش رفت جاری ہے، صدر اشرف غنی کے دوبارہ انتخاب کے بعد افغانستان میں نئی حکومت اقتدار میں آ چکی ہے۔

ہم امید کر رہے ہیں کہ امریکا اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے۔انہوں نے کہاکہ افغانستان میں قیام امن سے وسطی ایشیا میں تجارت کے نئے امکانات پیدا ہوں گے، تب افغانستان ہمارے لیے بھی ایک اقتصادی راہداری بن جائیگا، جب افغانستان میں امن قائم ہو جائیگا، تو اس کا فائدہ ہمارے اس صوبے خیبر پختونخوا کے عوام کو بھی پہنچے گاجس کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ایک اور سوال پر وزیر اعظم نے کہاکہ پاکستان نے ان امن مذاکرات میں اپنا کردار ادا کیا ہے، طالبان نے کچھ لوگوں کو یرغمال بنا رکھا تھا اور پاکستان کی مدد سے دو مغربی یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو گئی،اس لیے، ہمارا جتنا بھی اثر و رسوخ ہے، ہم اپنی پوری کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔وزیر اعظم نے کہاکہ مجھے پاکستان میں اتنے زیادہ مسائل پر توجہ دینا ہوتی ہے کہ مجھے یہ کوئی بہت بڑا موضوع لگا ہی نہیں، دیکھا جائے، تو یہ ان کی اپنی زندگی ہے۔ اگر وہ اپنی زندگی اس طرح گزارنا چاہتے ہیں، تو کسی کو بھی اس میں کوئی مداخلت بھلا کیوں کرنا چاہیے؟۔

موضوعات:



کالم



عمران خان پر مولانا کی مہربانی


ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…