عدیل اکبر اسلام آباد پولیس میں ایس پی تھے‘ 2017ء میں سی ایس ایس کے بعد پولیس فورس جوائن کی‘ یہ مقابلے کے امتحان میں دوسرے نمبر پر آئے تھے‘ گورنمنٹ کالج لاہور کے برائیٹ سٹوڈنٹ رہے‘ خاندان بھی اچھا اور سلجھا ہوا تھا‘ اسلام آباد سے قبل کوئٹہ میں تعینات تھے‘ وہاں ان کے خلاف انکوائری ہوئی اور ان کی پروموشن رک گئی‘ یہ بورڈ سے دومرتبہ ڈراپ ہوئے‘ ان کے ایک بیچ میٹ اسلام آباد میں ہیں‘ ان کی سفارش پر انہیں اسلام آباد بلا لیا گیا اور شولڈر پروموشن دے کر ایس پی لگا دیا گیا‘ یہ فل برائیٹ سکالر شپ پر اگلے سال امریکا جا رہے تھے‘ شادی شدہ تھے اور ان کی تین سال کی بیٹی تھی‘ کولیگز اور ماتحتوں کے ساتھ بھی ان کا رویہ اچھا تھا لیکن 23 اکتوبر کی شام چار بج کر 23 منٹ پرانہوں نے اپنی سرکاری گاڑی کے اندر اپنے آپریٹر کی ایل ایم جی رائفل سے خودکشی کر لی‘
اس خبر نے پولیس فورس کے ساتھ ساتھ پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا‘ اس واقعے کو آج آٹھ دن ہو چکے ہیں لیکن سننے‘ دیکھنے اور پڑھنے والے سکتے میں ہیں‘ پولیس کے تین ڈی آئی جیز نے اس سانحے کی انکوائری کی‘ ایس پی کے ڈرائیور اور آپریٹر کے بیان‘ فون ڈیٹا کے تجزیے اور ڈاکٹروں سے تفتیش کے بعد پتا چلا عدیل اکبر ’’ڈیپ روٹیڈ سٹریس‘‘ میں تھے‘ یہ ماضی کے بے شمار حادثوں اور مسائل کا بوجھ اٹھا کر پھر رہے تھے‘ یہ آٹھ اکتوبر کو نفسیات دان کے پاس بھی گئے ‘ ڈاکٹر نے ان کی گفتگو سن کر ان کی بیگم کو بتایا ان کی دماغی صورت حال ٹھیک نہیں‘ آپ انہیں اسلحہ اور بلیڈ سے دور رکھیں‘ عدیل اکبر خود بھی اپنے آپ کو اس صورت حال سے نکالنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن پھر انہیں ڈینگی ہو گیا‘ انہوں نے چھٹی کی درخواست دی مگر آئی جی نے انہیں چھٹی نہیں دی اور یہ بخار میں کام کرتے رہے‘ 23 اکتوبر کو یہ بظاہر نارمل تھے‘
خودکشی سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل 35 منٹ گاڑی میں گھومتے رہے‘ گھر گئے‘ تھوڑی دیر وہاں رکے‘ پھر ڈرائیور کو بلایا اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے لیے نکل گئے‘ یہ اگلے سال فل برائیٹ سکالر شپ پر امریکا جا رہے تھے‘ ان کا کیس اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں تھا‘ سیکشن آفیسر کے ساتھ ان کی میٹنگ تھی لیکن جب یہ شاہراہ دستور پر پہنچے اور سیکشن آفیسر سے رابطہ کیا تو اس نے بتایا میں آفس سے نکل گیا ہوں‘ آپ پھر کسی دن آ جائیے گا‘ یہ اس وقت وزارت خارجہ کے سامنے تھے‘ انہوں نے ڈرائیور کو یوٹرن کا حکم دیا‘یہ سڑک کی دوسری سائیڈ پر آگئے‘ اس دوران ایس پی صدر یاسر کا فون آیا‘ انہوں نے فون سنا اور آپریٹر سے مخاطب ہوئے‘ آپ کے پاس کون سی گن ہے‘ اس نے جواب دیا ایل ایم جی‘ عدیل اکبر نے پوچھا کیا آپ لوگ کبھی گن چیک بھی کرتے ہیں‘ آپریٹر نے جواب دیا سر ہم ریگولر چیک کرتے رہتے ہیں‘ عدیل نے اس سے رائفل مانگ لی‘ آپریٹر نے میگزین نکال کر رائفل انہیں دے دی‘ انہوں نے اس سے میگزین مانگا‘لوڈ کیا‘ رائفل ٹانگوں کے درمیان رکھی‘ لمبا سانس لیا اور ٹریگر دبا دیا‘ دھماکا ہوا اور گولی ان کے دماغ سے پار ہوگئی۔
عدیل اکبر کی خودکشی ایک بڑی کیس سٹڈی ہے‘ اس کے تین پہلو ہیں‘ پہلا پولیس سروس کی ذہنی اور جسمانی صورت حال سے متعلق ہے‘ ہمیں یہ ماننا ہوگا گوادر سے لے کر سست بارڈر تک پاکستان کی ساری پولیس بیس برسوں سے ذلالت‘ بے عزتی‘ خوف اور تشدد کا شکار ہے‘ یہ سٹیٹ کے ہاتھوں ذلیل ہو رہی ہے‘ دہشت گردوں کا نشانہ بن رہی ہے اور سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے ہاتھوں بھی مار کھا رہی ہے‘ آپ صرف 2014ء سے 2025ء تک گیارہ سال کا ڈیٹا دیکھ لیں‘ اسلام آباد جیسے شہر میں ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجوکو عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے جیالوں نے شاہراہ دستور پر ڈنڈے مار مار کر ہسپتال پہنچا دیا اوروہ اس کے بعد کبھی بحال نہیں ہو سکے‘ تحریک لبیک بھی چھہ مرتبہ سڑکوں پر آ چکی ہے اور اس کے ہاتھوں دو سو پولیس اہلکار اور افسر پامال ہوئے اور دوبارہ پائوں پر کھڑے نہیں ہو سکے‘ عمران خان کتنی بار لشکر لے کر نکلے اور انہوں نے پولیس کا کیا حشر کیااور پولیس کے پی اور بلوچستان میں مسلسل دہشت گردوں کا نشانہ بن رہی ہے‘ پولیس کا کام جرائم روکنا ہے احتجاج نہیں لیکن ریاست پچھلے پچاس برس سے احتجاج رکوانے‘ مخالفین کو پھینٹا لگانے اور دہشت گردوں سے مقابلے کا کام لے رہی ہے چناں چہ اس کا کچھ نہ کچھ نتیجہ تو نکلنا تھا اور یہ نکل رہا ہے‘ پولیس شدید ڈپریشن اور اینگزائٹی کا شکار ہو چکی ہے‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو پولیس کا نفسیاتی معائنہ کرا لیں‘ آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی‘ پولیس کے ڈیوٹی آورز بھی لمبے ہیں‘ ایکسرائز اور فٹ نس کا کوئی میکنزم نہیں اور جاب سیکورٹی بھی نہیں‘
چھوٹی سی غلطی سے انہیں اٹھا کر کہیں سے کہیں پھینک دیا جاتا ہے‘ ملک مسلسل سیاسی افراتفری اور پولیٹیکل انجینئرنگ سے بھی گزر رہا ہے‘ پولیس نہیں جانتی یہ آج جس شخص کو گرفتار کر رہی ہے وہ کل اقتدار میں واپس آ کر اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گا اور یہ ہو بھی رہا ہے‘ پولیس افسروں کو اقتدار کی ہر تبدیلی کے بعد انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کوئی ان کی مدد نہیں کرتا چناں چہ ہم اگر پولیس فورس کو بچانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اس سے وہ کام لینا ہو گا جس کے لیے یہ بنی ہے اور وہ کام ہے کرائم فری سوسائٹی۔ آپ پولیس کو پولیس سٹیشنز تک محدود کریں اور احتجاج سے نبٹنے کاٹاسک رینجرز یا ایف سی کے حوالے کریں‘ یہ آئے‘ احتجاج ختم کرائے اور یونٹوں میں واپس چلی جائے تاکہ پولیس اطمینان سے اپنا کام کر سکے۔ہمارا دفتری نظام عدیل اکبر جیسے المیوں کا دوسرا پہلو ہے‘ ہمارا سسٹم انتہا درجے کا خوف ناک بلکہ اذیت ناک ہے‘ آپ اگر کسی سرکاری دفتر یا اہلکار کے شکنجے میں آ گئے تو یہ آپ کے ساتھ چوہوں جیسا سلوک کرے گا‘ ایس پی عدیل اکبر بھی تین دفتروں میں پھنسا ہوا تھا‘ آئی جی آفس سے ڈینگی کی وجہ سے تین دن کی چھٹی لینا چاہتا تھا‘ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے تعلیم کے لیے باہر جانے کی اجازت لینا چاہتا تھا اور فارن آفس سے اپنے کاغذات کی تصدیق کرا رہا تھا‘ میں اندازہ کر سکتا ہوں اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہو گا‘
یہ جہاں جاتا ہو گا ذلیل ہو کر رہ جاتا ہو گا‘ ہمارا بیوروکریٹک سسٹم دراصل بنا ہی دوسروں کو ذلیل کرنے کے لیے ہے‘ ایک کلرک جو سفارش اور رشوت سے بھرتی ہو گیا اور ایک افسر جس کا کل کمال سی ایس ایس یا پی سی ایس کا امتحان ہے وہ پوری زندگی ذلیل کرتا ہے‘ یہ سسٹم کام کرنے کی تنخواہ نہیں لیتا‘ کام روکنے اور خراب کرنے کا معاوضہ لیتا ہے‘ سرکاری ملازموں کا رویہ بھی انتہائی تحقیر آمیز ہوتا ہے‘ عدیل اکبر کی آخری دو کالوں میں سے ایک کال اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سیکشن فیسر سے گفتگو بھی تھی‘ اس نے یقینا اس سے بدتمیزی سے بات کی ہو گی‘ میرے ایک استاد نے 30سال قبل مجھے بتایا تھا آپ فون پر ہمیشہ میٹھے انداز سے بات کریں کیوں کہ آپ دوسری سائیڈ پر موجود شخص کی ذہنی اور جسمانی صورت حال سے واقف نہیں ہیں‘ وہ بے چارا ہو سکتا ہے پل پر کھڑا ہو کر آپ کو آخری امید سمجھ رہا ہو اور آپ کا نامناسب رویہ اس کی جان لے لے‘ دوسرا مجھے ایک مرحوم بیوروکریٹ نے بتایا تھا میں فون پر کسی بھی شخص کو انکار یا بری خبر نہیں دیتا‘ میں اسے بلاتا ہوں‘
سامنے بٹھاتا ہوں‘ چائے پلاتا ہوں اور پھر اسے بری خبر دے کر اسے اس کا حل بھی بتاتا ہوں لہٰذا لوگ پوری زندگی مجھ سے خوش رہے‘ کاش ہمارے بیورو کریٹک سسٹم کے پرزوں کو کوئی شخص یہ نقطہ سمجھا دے‘ کاش کوئی انہیں یہ بتا دے آپ کی پوزیشن عارضی ہے اور آپ اس سے جتنی نیکیاں کما سکتے ہیں آپ کما لیں‘آپ اپنی کرسی کو پھانسی گھاٹ نہ بنائیں اور تیسرا پہلو عدیل اکبر کی اندرونی صورت حال ہے‘ آپ اگر انسانی موڈز کا اندازہ کریں تو ہمارے موڈز اور ردعمل کا 50 فیصددارومدار ہمارے جینز اور ڈی این اے پر ہوتا ہے‘ ہماری جینز ہماری پیدائش سے قبل ہمارے موڈز اور ری ایکشنز کا فیصلہ کر دیتے ہیں‘ 40 فیصد کا انحصار ہمارے دماغ اور زندگی کے بارے میں ہمارے نظریے پر ہوتا ہے‘ ہم کیا سوچتے ہیں‘ ہم کسی طرح زندگی گزار رہے ہیں‘ ہمارے دوست احباب اور مشاغل کیا ہیں؟ یہ اس 40فیصد میں آتا ہے جب کہ باقی دس فیصد حالات ہوتے ہیں گویا باس‘ چھٹی‘ ڈینگی‘ سیکشن آفیسر‘ بیوی‘ والد‘ کولیگز اور سیاسی انتشار کا ہماری زندگی میں10فیصد سے زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا چناں چہ ہم حالات نہیں بدل سکتے‘ یہ ایک حقیقت ہے‘ ہم اپنا ڈی این اے بھی تبدیل نہیں کر سکتے یہ دوسری حقیقت ہے لیکن ہم اپنے مشاغل‘ دوست اور روٹین بدل کر اپنا 40 فیصد ضرور ٹھیک کر سکتے ہیں اور عدیل اکبر بے چارہ اس 40 فیصد پر فوکس نہیں کر پایا اور ناحق مارا گیا۔
میں 35برس سے پرسنل کوچنگ کا کام کر رہا ہوں‘ میرے سینکڑوں کلائنٹس ہیں‘ میں انہیں 10 تکنیکس سکھاتا ہوں جن میں سٹریس اور ڈپریشن سے نکلنے کی ایک تکنیک بھی شامل ہے‘ یہ تکنیک بہت سادہ ہے جب آپ کا موبائل ہیک ہو جاتا ہے تو آپ کیا کرتے ہیں‘ آپ موبائل کو آف کر کے دوبارہ آن کرتے ہیں‘ یہ عمل ری سیٹنگ کہلاتا ہے‘ آپ خود کو بھی ایک سمارٹ فون سمجھا کریں اور آپ جوں ہی ہیک ہونے لگیں توآپ خود کو آف اور ری سیٹ کریں‘ آپ بالکل سمارٹ فون کی طرح دوبارہ نارمل ہو جائیں گے لیکن سوال یہ ہے ہم یہ کریں گے کیسے؟ یہ میں آپ کو اگلے کالم میں عرض کروں گا۔














































